خبریں

جے این یو میں تشدد کا سہارا لینا خوفناک ہے: ابھیجیت بنرجی

جے این یو میں تشدد پر مرکزی وزیر نرملا سیتا رمن کے تبصرے سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے نوبل ایوارڈ یافتہ ابھیجیت بنرجی نے کہا کہ جے این یو کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اختلاف رائے کے لیے ایک محفوظ جگہ تھی۔ جے این یو کو دشمن مانے جانے کی لمبی روایت ہے۔

ابھیجیت بنرجی (فوٹو : رائٹرس)

ابھیجیت بنرجی (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: اتوار  کو جے این یو میں طلبا  پر ہوئے حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نوبل ایوارڈ یافتہ ابھیجیت بنرجی نے کہا کہ ان کے لیے سب سے زیادہ  فکر  کی بات یہ ہے کہ تنازعہ  کے حل  کے لیے نوجوان تشدد  کا  راستہ  اپنا رہے ہیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، جے این یو کے سابق طلبا  بنرجی نے کہا،‘مستقبل  کی پالیسی  کے لیے تشدد  کا دوہرایا جانا نہایت ڈراؤنا  ہے کیونکہ یہ آج کے نوجوانوں  کے لیے تشویش  پیدا کرتی ہے۔ میرے لیے سب سے زیادہ  تشویش  کی بات یہ ہے کہ وہ  اپنے تنازعوں  کے حل  کے لیے سامنے والے شخص  کو پیٹنے کا راستہ  اپنا رہے ہیں۔’

تشدد پر مرکزی وزیر خزانہ  نرملا سیتارمن کی تبصرے  سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے  ہوئے بنرجی نے کہا، ‘جے این یو کے لیے سب سے اہم  بات یہ تھی کہ وہاختلاف رائے  کے لیے ایک محفوظ جگہ  تھی ۔’

انہوں نے کہا، ‘اس محفوظ جگہ  کو بچانے کی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ملک کے مستقبل  کے لیے یہ اہم ہے کہ ہماری ایک ثقافت  ہے جہاں بنا تشدد  کا سہارا لیے ہم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں، جہاں ہم الگ رائے رکھ   سکتے ہیں اور بات چیت کی حد  سے باہر نہیں جاتے ہیں۔ میرے حساب سے (تشدد  کے لیے) کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے مدعا کہیں زیادہ سنگین  ہے۔’

بنرجی نے کہا، ‘ایک ایسی  خالی جگہ  ہونا ضروری ہے، جہاں ہم دونوں متفق   نہ ہو لیکن پھر بھی بات  کر سکیں۔ ہمارے لیے یہ ضروری  ہے کہ ہم اس جگہ  پر عدم اتفاق  کا اظہار کریں۔ جے این یو جیسے ادارے میں خاص بات یہ ہے کہ آپ دونوں ہو سکتے ہیں، کوئی ایسا شخص  جس کے پاس مضبوط خیالات   ہوں اور کوئی ایسا شخص  جو بنا  تشدد کیے نظریاتی طور پر اس سے نپٹ سکتا ہے۔’

جے این یو میں اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں 1983 میں تہاڑ جیل بھیج دیا گیا تھا، کیونکہ جے این یو کو اندرا گاندھی کے ذریعے  بہت بڑا دشمن مانا جاتا تھا… اس لئے جے این یو کو دشمن مانے جانے کی لمبی روایت  ہے۔انہوں نے کہا، ‘جے این یو کے بارے میں قابل ذکر  بات یہ تھی کہ یہ اختلاف رائے کے لیے ایک محفوظ جگہ  تھی۔ یہ بے  حد زندگی سے پُر تھا لیکن بہت بوقلمونی  کے ساتھ۔’

انہوں نے کہا، ‘جے این یو کو ہمیشہ  لیفٹ ادارے  کی طرح دیکھا جاتا ہے، لیکن نرملا سیتارمن، ایس جئے شنکر، سیتارام یچوری، پرکاش کرات اور یوگیندر یادو یہیں سے نکلے تھے۔ مغربی  بنگال کے متوسط طبقے  سے آنے کی وجہ سے  میں اصل میں آر ایس ایس  کو کسی بھی طور پر  نہیں جانتا تھا، اور پھر ہم ان سے (جے این یو کیمپس  میں) ملے۔ وہ  بات چیت میں لگے ہوئے تھے، تقریباً رسمی طور پر نرم  رویہ تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب مجھے خیالات  کی ایک بڑی سیریز کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم ساتھ ہو گئے تھے۔’