خبریں

شہریت قانون: رہائی کے بعد بو لے ایس آر داراپوری-پولیس نے حراست میں نہیں دیا کھانا اور کمبل

لکھنؤ میں شہریت قانون کی مخالفت کو لےکر گرفتار سماجی کارکن صدف جعفر اور سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو منگل کو جیل سے رہا کردیا گیا۔صدف کا الزام ہے کہ ان کو بنا کسی خاتون کانسٹبل کےحراست میں لیا گیااور بے رحمی سے پیٹا گیا۔

سابق آئی پی ایس ایس آر داراپوری اور سماجی کارکن صدف جعفر(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

سابق آئی پی ایس ایس آر داراپوری اور سماجی کارکن صدف جعفر(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: شہریت قانون (سی اے اے)کی مخالفت میں ہوئے پرتشدد مظاہرے کے دوران گرفتار کارکن اور کانگریس ترجمان صدف جعفر اور سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو منگل کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ کی ایک مقامی عدالت نے 13 دوسرے لوگوں کے ساتھ جعفر اور داراپوری کو سنیچر کو ضمانت دی تھی لیکن کاغذی کارروائی پوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جیل سے رہائی نہیں ہو سکی تھی۔

صدف جعفر کو 19 دسمبر جبکہ داراپوری کو 20 دسمبر کوگرفتار کیا گیا تھا۔ کانگریس کے سٹی صدر مکیش سنگھ چوہان نے بتایا کہ آج صبح تقریباً10 بجے دونوں جیل سے رہا ہو گئے۔انہوں نے بتایا،’میں پارٹی کارکنان کے ساتھ دونوں کولینے جیل گیا تھا۔ ہماری پارٹی شہریت قانون کی مخالفت میں پرامن  مظاہرہ کررہے لوگوں کے خلاف پولیس کی بربریت کی مخالفت کرتی ہے۔ ‘

سنیچر کو کارکنان کو 50000-50000 روپے کے ذاتی مچلکےاور ضمانتی رقم جمع کرنے کو کہا گیا تھا۔ داراپوری اور جعفر پر آئی پی سی کی دفعہ307، 332، 353، 147 اور 120بی کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔اس سے پہلے ان کی ضمانت عرضی کو جوڈیشیل مجسٹریٹ نے خارج کر دیا تھا۔ لکھنؤ میں مختلف حصوں میں 19 دسمبر کو ہوئے تشدد کےمعاملے میں42 ایف آئی آر درج کی گئی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ کی سینٹرل جیل سے رہاہونے کے بعد داراپوری نے کہا،’یہ گرفتاریاں سماجی اور سیاسی کارکنان کی آواز کودبانے کی حکومت کی ایک کوشش تھی۔ ‘انہوں نے کہا، ‘پورا ملک جس طرح سے قانون (شہریت قانون)کی مخالفت کر رہا ہے، اس سے حکومت ہل گئی ہے اور لوگوں کی آواز کو دبانے کاہتھکنڈہ اپنا رہی ہے۔ انہوں نے سماجی اور سیاسی کارکنان کو اس سیاست کے تحت جیل بھیجا تاکہ باہر مظاہرہ کر رہے لوگ بنا کسی کی قیادت کے الگ تھلگ پڑ جائیں لیکن حکومت اس میں ناکام رہی۔ ‘

داراپوری نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے ان کو ٹھنڈمیں کمبل نہیں مہیا کرایا اور نہ ہی کھانے کو کھانا دیا۔انہوں نے کہا،’مجھے آ دھی رات کو حضرت گنج تھانے میں رکھا گیا۔ میرے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ مجھے صبح 11 بجے پولیس نے پکڑا تھا اور اس کے بعد کھانے نہیں دیا۔ مجھے ٹھنڈ لگتی رہی، میں نے پولیس سے کمبل مانگا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ‘وہیں، صدف نے کہا، ‘ مجھے ترس آتا ہے کہ یوگی حکومت ڈری ہوئی ہے۔ میں شروعات میں غصے میں تھی لیکن مجھے ہنسی آ رہی تھی کہ انہوں نے پر امن مظاہرہ کرنے کے باوجود مجھ پر کس طرح کی دفعات لگائیں۔ ‘

صدف نے کہا کہ ان کو بنا کسی خاتون کانسٹیبل کے گرفتارکیا گیا اور بےرحمی سے پیٹا گیا۔لکھنؤ کی مقامی باشندہ صدف جعفر ایک ٹیچر، شاعر، کارکن،فنکار، مترجم اور کانگریس کارکن ہیں، جن کو 19 دسمبر کو پریورتن چوک سے گرفتار کیاگیا تھا۔24 دسمبرکو کانگریس کے ایک وفد نے جیل میں ان سے ملاقات کی تھی۔ اس دوران جعفر نے ان کوبتایا تھا کہ پولیس نے ان کے ساتھ مارپیٹ کی۔

معلوم ہو کہ سبکدوش آئی پی ایس افسر داراپوری 2003 میں ریٹائر ہونے کے بعد سے انسانی حقوق پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے 2019 کا لوک سبھا انتخاب بھی لڑا تھا لیکن وہ جیت درج نہیں کر پائے تھے۔سبکدوشی کے بعد داراپوری انسانی حقوق، خاتون کےحقوق،آدیواسی، دلتوں اور اقلیتوں جیسے سماجی انصاف تحریکوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

بتا دیں کہ سوموار کو بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی ) کے ایک وفدنے اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل سے ملاقات کی تھی اور سی اے اے کی مخالفت میں جیل میں بند بےقصور لوگوں کی جلد رہائی کرنے کی مانگ کرتے ہوئے اس میں مداخلت کرنے کی گزارش کی تھی۔اس کے ساتھ ہی جیل میں بند بےقصور لوگوں کے خلاف درج کئےگئے تمام معاملوں کو فوراً واپس لینے کی بھی گزارش کی تھی۔