خبریں

اے ایم یو میں پولیس کارروائی پر الہ آباد ہائی کورٹ سخت، این ایچ آر سی کو جانچ کی ہدایت

اترپردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی میں جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے خلاف ہو رہا مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا،جس میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:الہ آباد ہائی کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے طلبا پر ہوئے مبینہ  لاٹھی چارج معاملے کی جانچ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کو سونپ دی ہے۔لائیو لاء کے مطابق ،چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس وویک ورما کی آئینی بنچ نے یہ حکم محمد امن خان کے ذریعے 15 دسمبر، 2019 کو اے ایم یو میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)کی مخالفت میں ہوئےمظاہرے کے دوران پولیس کارروائی کے خلاف دائرپی آئی ایل کی شنوائی کے دوران دیا۔

کمیشن کو پانچ ہفتے کے اندر جانچ پوری کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اس معاملے کو فروری 17 کے لیے لسٹڈ کیا گیا ہے۔اس سے پہلے الہ آباد ہائی کورٹ نے اے ایم یو کے طلبا پر 15 دسمبر، 2019 کو پولیس کے ذریعےتشدد کے خلاف پی آئی ایل  پر اپنا فیصلے کو محفوظ رکھ لیا تھا، جس پر منگل کو فیصلہ سنایا گیا۔

عرضی میں کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباشہریت ترمیم قانون، 2019 کے خلاف 13 دسمبر سے پر امن مظاہرہ کر رہے تھے۔ 15 دسمبر کو یہ طلبا مولانا آزاد لائبریری کے آس پاس جمع ہوئے اور یونیورسٹی گیٹ کی طرف مارچ کیا۔عرضی گزار کاالزام ہے کہ یونیورسٹی  گیٹ پر پہنچنے پر وہاں تعینات پولیس نے طلبا کو اکسانا شروع کر دیا، لیکن طلبا نے رد عمل نہیں دیا۔ کچھ وقت کےبعد پولیس نے ان طلبا پر آنسو گیس کے گولے چھوڑنے شروع کر دیے، اور ان پر لاٹھیاں برسائیں، جس میں تقریباً 100 طلبا زخمی  ہو گئے۔


یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو میں جامعہ سے بھی زیادہ بربریت سے اسٹوڈنٹ کو پولیس نے پیٹا: فیکٹ فائنڈنگ ٹیم


امر اجالاکے مطابق، عرضی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مظاہرے کے دوران طلبا پر پولیس کارروائی کی جانچ  ہائی کورٹ کے جج یا ایس آئی ٹی سے کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔ کہا گیا ہے کہ پر امن مظاہرہ کر رہے طلبا کے ساتھ پولیس اور آراے ایف کے جوانوں نے بے رحمی کے ساتھ برتاؤ کیا۔ساتھ ہی عرضی میں گرفتار طلبا کو رہا کرنے، ان پر لگا مقدمہ ہٹانے،زخمی طلبا کا علاج کرانے، معاوضہ دیے جانے، مجرم پولیس اہلکاروں  کو سزا دینے سمیت کئی مانگ کی گئی ہیں۔

وہیں ریاستی حکومت  کی طرف سے جوابی حلف نامہ داخل کیا گیا اور پولیس کارروائی کا بچاؤ کیا گیا ہے۔ریاست نے دلیل دی کہ یونیورسٹی کا گیٹ طلبا کے ذریعے توڑ دیا گیا تھا اور یونیورسٹی انتظامیہ کی گزارش پر پولیس تشدد میں ملوث طلبا کو قابو میں کرنے کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں داخل  ہوئی اور اس کارروائی کے دوران کوئی اضافی فورس استعمال نہیں کی گئی۔

آئی جی اور ایس ایس پی کی طرف سے داخل حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی تھی۔پبلک پراپرٹی  کونقصان  سے بچانے کے لیے کارروائی کی گئی تھی۔ 26 لوگوں کو تشدد کرنے کے الزام  میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کی ہے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی کے جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے ساتھ کی گئی کارروائی کے خلاف مظاہرہ ہو رہا  تھا،جو پر تشدد ہو گیا۔طلبا اور پولیس اہلکاروں کی جھڑپ میں میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ان میں کچھ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔