خبریں

جے این یو تشدد معاملے  کے چار دن بعد بھی کوئی گرفتاری نہیں، امرتیہ سین نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا

گزشتہ پانچ جنوری کو نئی دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں نقاب پوش لوگوں کی بھیڑ نے گھس‌کر تین ہاسٹل میں طالب علموں اور پروفیسروں پر حملہ کیا تھا۔ نوبل ایوارڈ یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے کہا کہ کچھ باہری لوگ آئے اور یونیورسٹی کے طالب علموں کو اذیت پہنچائی۔یونیورسٹی کے افسر اس کو روک نہیں سکے۔ یہاں تک کہ پولیس بھی وقت پر نہیں آئی۔

امرتیہ سین (فوٹو : رائٹرس)

امرتیہ سین (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں طالب علموں اور اساتذہ پر حملے کے چار دن بعد بھی دہلی پولیس اب تک کوئی گرفتاری نہیں کر پائی ہے۔اس بیچ نوبل ایوارڈ یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے دہلی پولیس کے رول کی تنقید کی ہے۔امرتیہ سین نے گزشتہ بدھ کو جے این یو میں حملے کا شکار ہوئے طالب علموں کی حمایت کرتے ہوئے تشدد سے نمٹنے میں پولیس کے کردار کی تنقید کی اور کہا کہ معاملے میں انصاف کی بڑی کمی ہے۔

کولکاتا میں ایک بنگالی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی میں اقتصادیات اور فلسفہ کے پروفیسر امرتیہ سین نے کہا،کچھ باہری لوگ آئے اور (جواہر لال نہرو) یونیورسٹی کے طالب علموں کو زدوکوب کیا اور وہاں بدامنی  میں شامل رہے۔ یونیورسٹی کے افسر اس کو روک نہیں سکے۔ یہاں تک کہ پولیس بھی وقت پر نہیں آئی۔انہوں نے کہا،وہ (پولیس) آج تک کسی کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ کیمرے (سی سی ٹی وی) کام نہیں کر رہے تھے۔میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ان کی (پولیس کی)رپورٹ میں کچھ مسئلہ تھا، اسی لئے اس کو جمع نہیں کیا جا سکتا ہے اور ایف آئی آر انہی لوگوں کے خلاف درج کر لی گئی جن کو پیٹا گیا ہے۔

سین نے کہا، اس معاملے میں انصاف کی  بڑی کمی ہے۔ یہ بہت ہی سامنے ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جے این یو کیمپس میں پانچ جنوری کو دوپہر بعد 2:30 بجے جب پہلی بار نقاب پوش حملہ آوروں کودیکھا گیا۔ اس کے بعد تقریباً چار گھنٹے تک پولیس کنٹرول روم (پی سی آر) کے پاس 23 کال کی گئیں۔ اس کے کئی گھنٹے بعد پولیس موقع پرپہنچی۔

نریندر مودی حکومت کے خلاف بولڈ  رہے سین نے متنازعہ شہریت قانون (سی اے اے) پر کہا کہ اس کو رد کیا جاناچاہیے۔انہوں نے کہا،  مجھے لگتا ہے کہ سی اے اے کو رد کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک قانون نہیں ہو سکتا ہے سپریم کورٹ  کا کام یہ دیکھنا ہے کہ پارلیامنٹ میں جو منظور کیا گیا تھا، اس کوکیا قانونی طور پر آئین سے جوڑا جا سکتا ہے۔معلوم ہو کہ جے این یو کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار یونیورسٹی کیمپس میں گزشتہ  پانچ جنوری کو نقاب پوش لوگوں کے ذریعے طالب علموں اور پروفیسروں پر ہوئے حملے کے معاملے میں لگاتار تنقیدکا سامنا کر رہے ہیں۔

پانچ جنوری کو جے این یو کیمپس میں نقاب پوش لوگوں کی بھیڑ نے گھس‌کر تین ہاسٹل میں طالب علموں پر حملہ کیا۔ لاٹھی، لوہے کی چھڑہاتھ میں لئے ان حملہ آوروں نے سابرمتی ہاسٹل سمیت کئی عمارت میں جم کر توڑپھوڑ کی تھی۔ حملہ آوروں نے ٹیچرز کو بھی نہیں چھوڑا۔اس مارپیٹ میں طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش کو کافی چوٹیں آئی تھیں اور کم سے کم 30 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ پروفیسر سچارتا سین کےسر پر بھی گہری چوٹ لگی ہیں۔

لیفٹ اور اے بی وی پی اس تشدد کے لئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ جے این یوایس یو کا دعویٰ ہے کہ ان کی صدر آئشی گھوش اور کئی دیگر اسٹوڈنٹس کو اے بی وی پی کے ممبروں نے پیٹا ہے۔ وہیں، اے بی وی پی نےلیفٹ طلبہ تنظیموں ایس ایف آئی، آئسا اور ڈی ایس ایف پر حملے کا الزام لگایا ہے۔وائس چانسلر کے استعفیٰ کی بڑھتی مانگ‌کے درمیان جے این یو ٹیچرز یونین (جے این یو ٹی اے) نے کہا کہ کیمپس پر حملہ یونیورسٹی انتظامیہ کی سرپرستی اور پولیس کی جان-بوجھ کر برتی گئی غیر فعالیت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

تشدد کے دو دن بعد سات جنوری کو اپنی خاموشی توڑتے ہوئے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے کہا تھا کہ یہ واقعہ ناگہانی تھا اور طالب علموں سے بیتی بات بھولنے کی اپیل کی لیکن پانچ جنوری کو نقاب پوشوں کے حملے کے دوران افسروں کے ذریعے دیر سے قدم اٹھائے جانےکے الزامات پر جواب دیا تھا۔

ٹیچرز یونین نے طالب علموں سے پرانی باتوں کو چھوڑ‌کر کیمپس میں لوٹنے کے وائس چانسلر کی اپیل پر بھی ان کی تنقید کی۔ سینئر کانگریس رہنما پی چدمبرم نے کمار پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ ان کو خود اپنی صلاح پر عمل کرتے ہوئے یونیورسٹی چھوڑ دینا چاہیے۔معلوم ہو کہ جے این یو میں ہوئے حملے کے خلاف مظاہرہ جاری ہے۔ جمعرات کو طالب علم کیمپس سے ایم ایچ آر ڈی  تک مارچ نکال رہے ہیں، حالانکہ پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔

ایچ آر ڈی نے وائس چانسلر طالب علموں اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کی گزارش کی

وزارت برائے ترقیِ انسانی وسائل نے بدھ کو وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کیمپس میں حالات کو نارمل کرنے کے لئے قدم اٹھانے کا مشورہ دیا۔ جےاین یو کے وائس چانسلر اور ریکٹر پروفیسر ستیش چندرا گرکوٹی نے وزارت برائے ترقیِ انسانی وسائل کے افسروں سے ملاقات کی اور کیمپس کی حالت کی جانکاری دی۔وزارت کے افسروں نے ایک اجلاس میں وائس چانسلر سے یہ گزارش بھی کی کہ طالب علموں اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت بڑھائیں اور ان کواعتماد میں لیتے ہوئے رجسٹریشن کی کارروائی کرائیں۔

بھاری پولیس دستہ کی تعیناتی کے درمیان کیمپس میں حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔ اتوار کے تشدد کے بعد بڑی تعداد میں طالب علم کیمپس میں نہیں آ رہے ہیں۔ کیمپس میں شناختی کارڈ کے ساتھ طالب علموں کو ہی داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔پولیس ڈپٹی کمشنردیویندر آریہ نے کہا کہ جے این یو میں حالات قابو میں ہیں۔ انہوں نے کہا،جے این یو انتظامیہ کی گزارش پر پولیس کی موجودگی بنی رہے‌گی۔

وزارت برائے ترقیِ انسانی وسائل کے ایک افسر نے کہا،اعلیٰ تعلیمی سکریٹری امت کھرے اور جی سی ہوسور نے جے این یو کے وائس چانسلر سے بدھ کو وزارت میں ملاقات کی اور کیمپس میں عام حالات بحال کرنے کے لئے کی جا رہی کوششوں پر بات کی۔ وائس چانسلر نےافسروں کو خواہش مند طالب علموں کے لئے رجسٹریشن کارروائی  آسان بنانے اور مثبت ماحول بنانے کے لئے کی جا رہی کوششوں کی جانکاری دی۔

جے این یو کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا، آج صبح امت کھرے (سکریٹری ایچ آر ڈی) اور جی سی ہوسور(جوائنٹ سکریٹری اعلیٰ تعلیم) سے ملاقات کی اور ان کو جے این یو میں عام حالت بحال کرنے کے بارے میں اٹھائے جا رہے قدموں سےواقف کرایا۔

دہلی پولیس سوالوں کے گھیرے میں

بدھ کو پولیس افسروں کے مطابق، ان کو اس پورے واقعے سے جڑی 11 شکایتں ملی ہیں جن میں ایک شکایت ایک پروفیسر نے درج کرائی ہے۔کیمپس میں تشدد کے دوران کارروائی نہیں کرنے کو لےکے پولیس کی بھی تنقید ہوئی۔توڑپھوڑ کے معاملے میں درج دو ایف آئی آر میں جے این یو طلبہ یونین(جے این یو ایس یو)صدر آئشی گھوش سمیت دیگر یونین رہنماؤں کونامزد کرنے پر بھی پولیس تنقیدوں کے گھیرے میں ہے۔

اس پر سی پی آئی (ایم) جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے الزام لگایا کہ دہلی پولیس مودی حکومت کی کٹھ پتلی کی طرح کام کر رہی ہے۔ انہوں نےجے این یو تشدد کی تفتیش عدالت کی نگرانی میں کرانے کی مانگ کی اور کہا کہ متعصب پولیس تفتیش کی کوئی صداقت نہیں ہے۔کانگریس نے کہا کہ ملک میں یہ نیا چلن بن گیا ہے کہ حملہ کرنے والوں کے بجائے متاثرین کے نام ایف آئی آر درج کئے جا رہے ہیں۔

اس تشدد کو لے کرپولیس نے نامعلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔

جے این یو میں ہوئے تشدد کے بعد وائس چانسلر کو ہٹانے کی مانگ کو لےکر طلبہ و طالبات نے جمعرات کو کیمپس سے وزارت برائے ترقیِ انسانی وسائل کے دفتر تک مارچ کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

جے این یو میں ہوئے تشدد کے بعد وائس چانسلر کو ہٹانے کی مانگ کو لےکر طلبہ و طالبات نے جمعرات کو کیمپس سے وزارت برائے ترقیِ انسانی وسائل کے دفتر تک مارچ کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

دہلی پولیس کے عوامی رابطہ افسر انل متل نے گزشتہ سات جنوری کو کہا تھا، دہلی پولیس کی کرائم برانچ کی ایک ٹیم معاملے کی تفتیش سائنسی اور پیشہ ور طریقے سے کر رہی ہے اور ثبوت جٹائے جا رہے ہیں۔کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی کی قیادت جوائے ترکی کر رہے ہیں۔

معاملے کی تفتیش کے لئے شواہد جمع کرنے والی کمیٹی کی قیادت جوائنٹ پولیس کمشنر  شالنی سنگھ کر رہی ہیں۔ انہوں نے جےاین یو کیمپس کا دورہ کیا اور طالب علموں اور اساتذہ سے بات کی۔تشدد کے بعد سے کیمپس میں تحفظ بڑھا دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے مختلف دروازوں پر بڑی تعداد میں پولیس اہلکار موجود ہیں۔

کئی پارٹیوں  نے کیا یکجہتی کا مظاہرہ

بدھ کو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان نے یونیورسٹی کیمپس پہنچ‌کر طالب علموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ڈی ایم کے رہنما اور پارٹی رکن پارلیامان ایم کنموئی نے آئشی گھوش سمیت طالب علموں سے بات چیت کی۔انہوں نے طالب علموں سے کہا،پورا ملک آپ کے ساتھ ہے۔ دل چھوٹا مت کیجئے۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس کی مذمت کی ہے۔ ہم اس مدعاکو اٹھائیں‌گے۔ ہم آپ کے لئے جدو جہد کریں‌گے۔

کانگریس کی ایک جانچ کمیٹی نے اس مدعا پر طالب علموں سے بات چیت کی اور ان کے بیان کی ویڈیوگرافی کرائی گئی۔ اس کمیٹی میں مہیلا کانگریس صدر سشمتا دیو، ارناکلم سے پارٹی رکن پارلیامان ہبی اڈین، جے این یو کی این ایس یو آئی اکائی کے سابق صدر سید ناصر حسین اوردہلی یونیورسٹی طلبہ یونین کی سابق صدر امرتا دھون شامل ہیں۔سشمتا دیو نے حملے کا شکار ہوئے لوگوں سے بات کرنے کے لئے کوئی جانچ کمیٹی نہیں بھیجنے پر وزارت برائے ترقیِ انسانی وسائل اور دہلی حکومت کی تنقید کی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)