خبریں

سو سے زیادہ سابق نوکر شاہوں نے خط لکھ کر کہا، ہندوستان کو سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی ضرورت نہیں

خط میں سابق نوکرشاہوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی بیکار کی قواعد ہے، جس سے بڑے پیمانے پرلوگوں کو پریشانیاں  ہوں‌گی، عوامی اخراجات ہوں گے۔ بہتر ہوگا کہ اس کو غریبوں اور سماج کے محروم طبقوں کی فلاح سے متعلق  اسکیموں پر خرچ کیاجائے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: شہریت قانون (سی اے اے) کے آئینی جواز پر شدید اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے 106 سابق نوکرشاہوں نےجمعرات کو ایک کھلا خط لکھ‌کر کہا کہ شہریت قانون (سی اے اے)، این آر سی اوراین پی آر غیر ضروری اور بیکار کی قواعد ہے، جس سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو  ہوں‌گی۔ان سابق نوکرشاہوں میں دہلی کے سابق نائب گورنر نجیب جنگ، اس وقت کے کابینہ  سکریٹری کے ایم چندرشیکھر اور سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ شامل ہیں۔

ان لوگوں نے شہریوں سے مرکزی حکومت سے اس پر زور دینے کی گزارش  کی ہے کہ وہ قومی شناختی کارڈ سے متعلق شہریت قانون 1955کی متعلقہ دفعات کو خارج کریں۔خط کا عنوان ہے ‘ہندوستان کو سی اے اے-این پی آر-این آر سی کی ضرورت نہیں۔’اس خط میں لکھا ہے، سی اے اے کے اہتماموں کے آئینی جواز کو لےکر ہماراشدید اعتراض ہے جس کو ہم اخلاقی طور پر حمایت کے قابل نہیں  مانتے ہیں۔ ہم اس پر زور دینا چاہیں‌گے کہ یہ قانون ہندوستان کی آبادی کے ایک بڑے طبقے میں خدشہ پیدا کرے‌گا جو جان-بوجھ‌کر مسلمانوں کو اس کے دائرے سے باہر کرتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا 22 دسمبر کو دہلی میں ایک عوامی جلسہ میں دیا گیا بیان کہ سی اے اے اور این آر سی ایک دوسرے سے جڑے نہیں ہیں، ان کے وزیر داخلہ (امت شاہ) کے ذریعے بار بار دئے گئے بیانات کے برعکس ہے۔خط میں لکھا ہے،ایسے وقت میں جب ملک کی اقتصادی حالت پر ملک کی حکومت کو  سنجیدگی سے دھیان دیے جانے کی ضرورت ہے، ہندوستان ایسی صورتحال کوبرداشت نہیں کر سکتا جس میں شہریوں اور حکومت کے درمیان سڑکوں پر ٹکراؤ ہو۔

خط میں لکھا ہے، نہ ہی ایسی حالت مطلوب ہے جس میں کئی ریاستی حکومتیں این پی آر یا این آر سی نافذ کرنے کو تیار نہیں ہیں، جس سےمرکز اور ریاست کے تعلقات میں ایک تعطل پیدا ہو…خط میں یہ بھی لکھا ہے،ہم ایک ایسی صورتحال کے پیدا ہونے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں، جس میں ہندوستان کے عالمی سطح پر خیرسگالی کھونےاور قریب پڑوسیوں سے اس کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، جس کے منفی نتائج  پیدا ہو سکتے ہیں۔

سبکدوش نوکرشاہوں نے کہا کہ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

خط میں لکھا ہے،سابق نوکرشاہوں کا ہمارا گروپ  کا یہ مضبوطی سے ماننا ہے کہ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی غیر ضروری اوربیکار کی قواعد ہے جس سے بڑے پیمانے پر لوگوں کوپریشانیاں  ہوں‌گی۔ اس سے عوامی اخراجات ہوں گےاور بہتر ہوگا کہ اس کو غریبوں اورسماج کے محروم طبقوں کی فلاح سے متعلق  اسکیموں پر خرچ کیا جائے۔اس میں کہا گیا کہ اس سے شہریوں کے پرائیویسی کے حق کا بھی غلط استعمال  ہوگا کیونکہ اس میں کافی اطلاعات لی جائیں گی جیسےآدھا،موبائل نمبر اور ووٹر شناختی کارڈ، جس کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔

CAA letter by The Indian Express on Scribd

سابق نوکرشاہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مختلف حصوں سے لوگوں کے ذریعے ضروری برتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی جلدبازی کرنےکی تشویشناک خبریں پہلے ہی آرہی ہیں۔خط میں لکھا گیا ہے کہ سی اے اے کے اہتماموں کے ساتھ ہی پچھلے کچھ سالوں سے اس حکومت کی اعلیٰ سطحوں سے جارحانہ بیانات نےملک کے مسلمانوں کے درمیان گہری بےچینی پیدا کی ہے، جو پہلے سے ہی  مویشی اسمگلنگ اور گائے کا گوشت استعمال جیسےالزامات سے جڑے مدعوں کو لےکر جانبداری اور حملوں کاسامنا کر رہے ہیں۔

خط میں لکھا گیا ہے،  حال کے دنوں میں مسلم کمیونٹی کو ان ریاستوں میں پولیس کاروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں مقامی پولیس مرکز میں حکمراں پارٹی کےکنٹرول میں  ہے۔ یہ اس وسیع خدشہ کو اور مضبوط کرتا ہے کہ این پی آر-این آر سی اور سی اے اے قواعد کا استعمال مخصوص کمیونٹی اور افراد کو نشانہ بنانے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔خط میں سابق نوکرشاہوں نے لوگوں سے حکومت سے یہ بھی گزراش  کرنے کے لئے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی (عدالت) ترمیمی حکم، 2019کے ساتھ ہی ڈٹینشن کیمپ تعمیر کی تمام ہدایت واپس لے اور سی اے اے 2019 کو ردکرے۔

خط میں ان لوگوں نے غیر ملکی (عدالت) ترمیمی حکم، 2019 کے تحت غیرملکی عدالت اور ڈٹینشن کیمپ وسیع طور پرقائم کئے جانےپر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔معلوم ہو کہ بیتے 11 دسمبر کو پارلیامنٹ سے شہریت ترمیم بل منظور ہونے کے بعد سے آسام اور شمال-مشرق کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرےہو رہے ہیں۔گزشتہ 12 دسمبر کو صدر کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی یہ بل اب قانون بن گیا ہے۔

اس بل میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس  میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہےجو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)