خبریں

اسٹنگ آپریشن میں دو اے بی وی پی طالبعلموں نے تشدد میں شامل ہونے کی بات قبول کی

دہلی پولیس کی پریس کانفرنس کے ایک گھنٹے بعد ہی اس کے دعووں پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک نجی نیوز چینل انڈیا ٹوڈے نے جمعہ  کی شام کو ایک اسٹنگ آپریشن نشرکیا۔ اس میں دو طلبا اے بی وی پی کا ممبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پانچ جنوری کے تشدد میں اپنے رول کے بارے میں بتاتے ہیں۔

JNU-violence-2

نئی دہلی: دہلی پولیس نے جے این یو کیمپس میں ہوئے تشدد معاملے میں جمعہ کو پریس کانفرنس کر اس بات کی جانکاری دی کہ اس تشدد میں شامل نو ملزم طالبعلموں کی پہچان‌کر لی گئی ہے۔ ان میں جے این یو  اسٹوڈنٹس  نین کی صدر آئشی گھوش، ایک کاؤنسلر سمیت سبھی جے این یو کے طالب علم ہیں۔ ملزمین میں آئشی گھوش سمیت سات لیفٹ تنظیم سے اور دو اے بی وی پی سے جڑے ہیں۔ پولیس نے ثبوت کے طور پر ان کے پوسٹر بھی جاری کئے۔

حالانکہ، دہلی پولیس نے طلبا اور اساتذہ پر ہوئے نقاب پوش  لوگوں  کے حملے کو لےکر کسی گروپ کا نام نہیں لیا، جس میں 36 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پانچ جنوری کا تشدد سیمسٹر کے لیے آن لائن رجسٹریشن پروسیس سے جڑا تھا اور جے این یو میں اس کو لے کر  ایک جنوری سے ہی کشیدگی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس پریس کانفرنس کے ایک گھنٹے بعد ہی دہلی پولیس کے دعووں پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک نجی نیوز چینل ‘انڈیا ٹوڈے’ نے جمعہ کی شام ایک اسٹنگ آپریشن  نشرکیا۔ اس میں دو طالب علم اے بی وی پی کے ممبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پانچ جنوری کے تشدد میں اپنے رول  کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اسٹنگ آپریشن میں بی اے فرسٹ ایئر(فرنچ) کے دو طالب علم اے بی وی پی کے ممبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہوں نے تشدد میں اپنا رول قبول کیا۔ اس کے ساتھ ہی لیفٹ تنظیم آئسا کی ممبر اور پی ایچ ڈی کر رہی جے این یو کی ایک دیگر طالبہ نے کیمپس میں واقع سرور روم کو نقصان پہنچانے میں اپنا رول قبول کیا ہے۔ چینل کے ذریعے نشر فوٹیج میں بی اے (فرنچ) طالب علموں میں سے ایک نے سابرمتی ہاسٹل میں بھیڑ کے حملے کی قیادت کرنے کا دعویٰ کیا۔

طالب علم نے کہا، پہلے پیریار (ہاسٹل) پر حملہ کیا گیا تھا اور یہ ان کی کارروائی کا رد عمل تھا میں نے پیریار کے پاس پڑے ایک جھنڈے سے ایک چھڑی نکالی۔ میں نے سابرمتی ہاسٹل پر حملہ کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا۔ اس نے کہا، اس نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جو کہ اے بی وی پی کا  سکریٹری ہے۔ وہاں بڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ ایک شخص تھا۔ وہ کشمیری لگ رہا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ مارپیٹ کی اور پھر پیر مار‌کر گیٹ  توڑ دیا۔

طالب علم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کیمپس میں پولیس  موجود تھی، اور ایک پولیس اہلکار نے تشدد کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اسٹوڈنٹ نے کہا، پیریار میں ایک طالب علم کے زخمی ہونے کے بعد میں نے خود پولیس کو بلایا تھا۔اے بی وی پی سے جڑے دوسرے طالب علم نے کہا کہ اس نے دوسرے اسٹوڈنٹ کو اپنا ” ہیلمیٹ ” دیا کیونکہ کانچ توڑتے وقت یہ حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھیڑ میں جے این یو کے 20 اے بی وی پی کارکن تھے۔

اس بارے میں اے بی وی پی کی نیشنل سکریٹری ندھی ترپاٹھی نے کہا، جن کا نام لیا جا رہا ہے، میں ان دو آدمیوں میں سے کسی کو بھی نہیں جانتی۔ وہ اے بی وی پی کے ممبر نہیں ہیں اور ان کو اے بی وی پی کے ذریعے کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی آدمی اے بی وی پی سے صرف اس لئے ہے کیونکہ وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ہیں۔ یہ جانچ کی  جا سکتی ہے کہ کیا اے بی وی پی نے ان کو کبھی کوئی ذمہ داری دی ہے۔ ‘

وہیں، بی اے کے دونوں طالب علموں سے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔

آئسا کارکن اور پی ایچ ڈی طالبہ کو یہ کہتے ہوئے کیمرے میں قید کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے سرور کو بند کر دو۔ انڈین ایکسپریس کے ذریعے رابطہ کئے جانے پر طالبہ نے کہا، اس واقعہ کا رد عمل ہم پر اے بی وی پی کا تشدد کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم قبول  کرتے ہیں کہ ہماری مخالفت کی وجہ سے انتظامی کام رک گیا تھا۔ تب ان کو ہم سے بات کرنے آنا چاہیے تھا ؛ اے بی وی پی کون ہے جس نے آکر ہمیں مارا؟

اس نے ٹوئٹ کر لکھا، سرور روم کے سامنے بیٹھ‌کر کیسے میں نے اے بی وی پی کو  اتنا خوفناک  کر دیا کہ انہوں نے 5 جنوری کو طالب علموں پر بےرحمی سے لوہے  کی راڈ سے حملہ کر دیا؟ اس سے پہلے اپنی پریس کانفرنس میں ایس آئی ٹی کے چیف، پولیس ڈپٹی کمشنر (کرائم برانچ) جائے ٹرکی نے بتایا کہ ایس ایف آئی، آئسا، ڈی ایس ایف اور اے آئی ایس ایف سے جڑے طالب علموں نے حال میں ونٹر سیمسٹر کے لئے آن لائن رجسٹریشن شروع ہونے پر ہنگامہ کیا تھا اور طالب علموں کو ڈرایا تھا۔

جن لوگوں کی مشکوک کے طور پر پہچان ہوئی ہے، ان میں لیفٹ تنظیموں  سے جڑے ڈولن سامنتا، پریہ رنجن، سچیتا تعلقدار، آئشی گھوش، بھاسکر وجئے  میچ، چن چن کمار (سابق طالب علم) اور پنکج مشرا شامل ہیں۔ دیگر دو مشکوک لوگوں  کی پہچان وکاس پٹیل اور یوگیندر بھاردواج کے طور پر ہوئی ہے جو اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے جڑے ہیں۔ حالانکہ، کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔

ٹرکی نے کہا کہ سبھی مشکوک لوگوں کو نوٹس بھیجے جائیں‌گے۔ میڈیا بریفنگ کے بعد انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ افسر نے کہا کہ گھوش اور آٹھ دیگر پانچ جنوری کو پیریار ہاسٹل میں ہوئے تشدد میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ ایک وہاٹس ایپ گروپ ‘ یونٹی اگینسٹ لیفٹ ‘ بنا ہے۔

پولیس کی شروعاتی تفتیش اور ایس آئی ٹی کے ذریعے نو مشکوک لوگوں  کی تصویریں جاری کئے جانے پر تین مرکزی وزراء-پرکاش جاویڈکر، پیوش گوئل اور اسمرتی ایرانی نے کہا کہ پولیس کے ذریعے جٹائے گئے ثبوتوں سے لیفٹ تنظیموں  کے ارادوں کا انکشاف  ہو گیا ہے۔

وہیں، لیفٹ رہنماؤں نے دہلی پولیس پر حکومت کی کٹھ پتلی ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ اب بھی یہ سوال بنا ہوا ہے کہ اتوار کو جے این یو کے سابرمتی ہاسٹل میں تشدد کرنے والے نقاب پوش کون تھے۔ جے این یو ٹیچرس ایسوسی ایشن نے دہلی پولیس پر تشدد کو ‘ کمتر ‘ ماننے کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ ڈسٹرب  کرنے والا ہے۔

کانگریس نے بھی دہلی پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ واضح ہے کہ وہ حکومت کے اثر میں ہے۔ ایچ آر ڈی منسٹر رمیش پوکھریال نشنک نے کہا کہ تشدد میں جے این یو طالب علموں کا ملوث  ہونا بدقسمتی ہے۔ لیفٹ تنظیموں  سے جڑے طالب علموں پر الزامات کو خارج کرتے ہوئے جے این یو اسٹوڈنٹس  یونین کی صدر آئشی گھوش نے کہا کہ انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ تشدد میں گھوش بھی زخمی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس بھی اس بات کے ثبوت ہیں کہ ان پر کس طرح حملہ ہوا۔

ایچ آر ڈی کے افسروں سے ملاقات کے بعد گھوش نے کہا کہ وہ وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو ہٹانے کی مانگ پر اب بھی قائم ہیں۔ ایس آئی ٹی کے چیف ٹرکی نے قبول  کیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی کمی جانچ میں بڑی رکاوٹ تھی۔ یہ اس لئے نہیں مل سکی کیونکہ وائی فائی سسٹم خراب کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ  ہاسٹل کے کمروں کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا، اس لئے اندر کے  لوگوں کا ہاتھ ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)