خبریں

فیکٹ چیک: جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر کی چوٹ کو فرضی بتانے والی تصویریں فرضی ہیں

جمعہ کو سوشل میڈیا پر جے این یو اسٹوڈنٹ یونین صدر آ ئشی گھوش کی دو تصویروں کو یہ کہہ‌کر شیئر کیا گیا کہ الگ الگ وقت پر ان کے ہاتھ میں بندھی پٹی ایک بار داہنی طرف اور ایک وقت بائیں طرف بندھی ہے اور ان کی چوٹ فرضی ہے۔ آ لٹ نیوزکی جانچ میں یہ دعویٰ جھوٹا پایا گیاہے۔

جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش(فوٹو : پی ٹی آئی)

جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : اتوار 5 جنوری کو جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں نقاب پوش لوگوں کے ذریعے کیے گئے تشدد میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش بری طرح زخمی ہو گئی تھیں۔ ان کے سر پر گہری چوٹ لگی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کے سر پر 16 ٹانکے آئےہیں، ساتھ ہی ان کی کمر اور ہاتھ میں بھی چوٹ آئی تھی۔جمعہ شام کو ٹوئٹر پر آ ئشی کی دو تصویریں یہ کہہ‌کر شیئر کی گئیں کہ الگ الگ وقت پر انہوں نے اپنے الگ الگ ہاتھ میں پٹی باندھی ہوئی تھی۔ ایسا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کی چوٹ فرضی ہے۔

آ لٹ نیوز کی جانچ میں یہ دعویٰ جھوٹا پایا گیا ہے۔آ لٹ نیوز نے بتایا کہ آ ئشی کی ایک تصویر کو مرر افیکٹ دیا گیا ہے، جس میں تصویر الٹی نظر آتی ہے۔جمعہ شام کو شیفالی ویدھ نام کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے آ ئشی کی دو تصویریں شیئر کی گئیں، جس میں کہا گیا، … یہ تو معجزہ ہے۔ آ ئشی کازخمی ہاتھ ایک ہی دن میں صحیح ہو گیا اور دوسرے ہی دن پھر ٹوٹ گیا …

Shefali-Vaidya-Aishee-Tweet

شیفالی نے ایک گھنٹے بعد اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ان کو بتایا گیا کہ یہ تصویرایڈیٹ کی ہوئی تھی۔ حالانکہ تب تک یہ تصویرمختلف ٹوئٹر ہینڈل سے اسی طرح کے دعوے کے ساتھ شیئر کی جا چکی تھی۔آر ایس ایس سے وابستہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی)کے نیشنل سکریٹری آشیش چوہان نے بھی یہی تصویر شیئر کی تھی، جس کو بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ اس ٹوئٹ کو پانچ سو سے زیادہ بار ری ٹوئٹ کیا گیا تھا۔ چوہان کا ٹوئٹ بی جے پی کے غیر ملکی امورکے محکمے کے انچارج ڈاکٹر وجئے چوتھائی والے نے بھی ری ٹوئٹ کیا تھا۔

ان کے علاوہ راجیش سالنکے نام کے اکاؤنٹ نے بھی آ ئشی کی چوٹ پر شک کا اظہار کرتے  ہوئے اسی طرح کی تصویر شیئر کی تھی۔ راجیش نےاپنے تعارف میں اے بی وی پی اسٹوڈنٹ  کارکن لکھا ہوا ہے۔

Aishee-Fake-Tweet-2

روزی(rose k01@) نام کے ایک اکاؤنٹ سے بھی اسی طرح کی تصویر شیئر کی گئی۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ اور دہلی کے بی جے پی ترجمان تجندر پال بگا روزی نام کے اس اکاؤنٹ کو فالو کرتے ہیں۔

آئشی کی چوٹ کو لےکر کیا گیادعویٰ جھوٹا ہے

آ ئشی کی اس طرح کی تصویریں فرضی ہیں اور فوٹوشاپ کی مدد سے تیار کی گئی ہیں۔ ان تصویروں اور دعووں کے الٹ اصل میں آ ئشی کےبائیں ہاتھ میں پلاسٹر لگا ہوا ہے، نہ کہ دائیں ہاتھ میں۔فوٹوشاپ کے مرر افیکٹ سے آئشی کی اوریجنل تصویر کو اس طرح سے پلٹ دیا گیا ہے، جس سے پلاسڑان کے بائیں ہاتھ کے بجائےدائیں پر لگا دکھتا ہے۔

ٹوئٹس میں شیئر کی جا رہی تصویر آئشی کے  ایک پریس کانفرنس  کی ہے۔ اسی پریس کانفرنس کی ایک فوٹو ہندوستان ٹائمس کے ذریعے 7جنوری 2020 ٹوئٹ کی گئی تھی۔ ان دونوں کا موازنہ یہاں دیکھ  سکتے  ہیں۔

دائیں طرف کی فوٹو وائرل ہوئی ہے، جو فرضی ہے۔ بائیں طرف کی تصویر اوریجنل ہے۔ (فوٹو بشکریہ : آ لٹ نیوز)

دائیں طرف کی فوٹو وائرل ہوئی ہے، جو فرضی ہے۔ بائیں طرف کی تصویر اوریجنل ہے۔ (فوٹو بشکریہ : آ لٹ نیوز)

ان دونوں تصویروں کا موازنہ کیا جائے، تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ وائرل ہو رہی تصویر اسی کانفرنس کی ہے۔ ان کی یکسانیت سمجھنے کےلئے تین پہلوؤں پر دھیان دیا جائے-

آئشی کے زخمی ہاتھ کی طرف بیٹھا آدمی

کالی جیکیٹ میں آئشی کے پیچھے کھڑا آدمی

کالی جیکیٹ والے آدمی کے بغل میں لال سوئٹر پہنے کھڑی خاتون

وائرل ہو رہی تصویر 6 جنوری کو ہوئے آئشی کے ایک پریس کانفرنس کی ہے اور ا س کے ویڈیو میں آئشی کے بائیں ہاتھ پر پلاسٹر بندھا دکھتاہے۔

اس کے علاوہ کئی جگہوں کی دیگر تصویریں دکھاتی ہیں کہ آئشی کے بائیں ہاتھ میں چوٹ لگی ہے نہ کہ دائیں ہاتھ میں۔

اس کے علاوہ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ذریعے جاری کی گئی 6 جنوری کے پریس کانفرنس کی تصویر میں بھی آئشی کے بائیں ہاتھ پرپلاسٹر دکھتا ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

آئشی کی اس طرح کی تصویر شیئرکرنے کا مقصد ان کی چوٹ کو لےکر افواہ پھیلانا لگتا ہے، جس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔

ٹوئٹر کے علاوہ وہاٹس ایپ اور فیس بک پر آئشی کی اسی طرح کی تصویریں شیئر کرکے ان کی چوٹ کو لےکر تمام دعوے کئے گئے ہیں۔

اس سے پہلے جے این یو میں ہوئے تشدد میں زخمی ہوئے ایس ایف آئی کے کارکن سوری کرشنن کی چوٹ کو لےکر بھی اسی طرح کی تصویریں شیئرکرتے ہوئے ایسے ہی دعوے کئے گئے تھے، جو فیکٹ-چیک میں جھوٹے ثابت ہوئے تھے ۔