خبریں

چندر شیکھر کی گرفتاری پر دہلی پولیس کو پھٹکار، کورٹ نے کہا-احتجاج کرنا آئینی حق

بھیم آرمی چیف چندر شیکھر آزاد کی ضمانت عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے دہلی کی تیس ہزاری کورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ آپ ایسا سلو ک کر رہے ہیں جیسے کہ جامع مسجد  پاکستان ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ پاکستان بھی ہوتا ،تو بھی آپ وہاں جا سکتے ہیں اور احتجاج کر سکتے ہیں۔ پاکستان غیر منقسم ہندوستان کا ایک حصہ تھا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دہلی کی تیس ہزاری عدالت میں چندرشیکھر آزاد کی ضمانت عرضی پر شنوائی کے دوران جج کامنی لاؤ نے منگل کو سرکاری وکیل کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ بھیم آرمی چیف کو ‘احتجاج  کرنے کا آئینی حق ہے۔’لائیو لاء کے مطابق، جج نے کہا، ‘مظاہرے میں غلط کیا ہے؟ احتجاج  کرنے میں کیا غلط ہے؟ یہ شخص  کے احتجاج  کرنے کا آئینی حق ہے۔’ چندرشیکھر آزاد کی ضمانت عرضی ا پر اگلی شنوائی کل دوپہر دو بجے ہوگی۔

پرانی دہلی کے دریا گنج علاقے میں شہریت (ترمیم) قانون کے خلاف مظاہرےکے بعد 21 دسمبر سے آزاد جیل میں ہیں۔ آزاد کی تنظیم بھیم آرمی نے 20 دسمبر کو پولیس کی اجازت کے بنا جامع مسجد سے جنتر منتر تک قانون  کے خلاف ایک مارچ کا انعقاد کیا تھا۔شہریوں  کے احتجاج   کرنے کے حق پر زور دیتے ہوئے جج لاؤ نے کہا، ‘آپ ایسا سلوک  کر رہے ہیں جیسے کہ جامع مسجد پاکستان ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ پاکستان بھی ہوتا، تو بھی آپ وہاں جا سکتے ہیں اور احتجاج  کر سکتے ہیں۔ پاکستان غیر منقسم ہندوستان  کا ایک حصہ تھا۔’

جب سرکاری وکیل نے کہا کہ مظاہرہ کرنے سے پہلے منظوری کی ضرورت ہوتی ہے تو جج لاؤ نے اس کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ دفعہ  144 کا استعمال غلط استعمال  ہے۔جج نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے پارلیامنٹ  کے باہر مظاہرہ  کرنے والے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو بعد میں سیاسی رہنما اور وزیر بن گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان  میں جو باتیں پارلیامنٹ  میں کہنی چاہیے  تھیں، وہ نہیں کہی گئیں اور اسی لئے لوگ سڑکوں پر ہیں۔

اس کے بعد سرکاری وکیل نے آزاد کے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی ضمانت عرضی کی  مخالفت کی۔ شروع میں سرکاری وکیل نے مبینہ قابل اعتراض  پوسٹ کو آزاد کے وکیل کے ساتھ شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ، اس پر جج نے سختی سے کہا کہ جب تک اس پر کوئی  خصوصی اختیار کا دعویٰ نہ کرے تب تک اس کو  شیئر کیا جا سکتا ہے۔

اس پر سرکاری وکیل نے آزاد کے کچھ سوشل میڈیا پوسٹ کو پڑھا۔ پوسٹ میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جامع مسجد پر احتجاج  اور مظاہرے کے لیے آزاد نے اپیل کی تھی۔اس کا ذکر کرتے ہوئے جج نے کہا، ‘احتجاج میں غلط کیا ہے؟ مظاہرہ  کرنے میں کیا غلط ہے؟ یہ شخص  کے احتجاج  کرنے کا آئینی حق  ہے۔’

پوسٹ کو کہیں سے بھی متشدد  نہ ہونے کی بات کہتے ہوئے جج نے کہا، ‘تشدد کہاں ہے؟ ان میں سے کسی بھی پوسٹ میں کیا غلط ہے؟ کس نے کہا کہ آپ احتجاج  نہیں کر سکتے ہیں؟ کیا آپ نے آئین  پڑھا ہے؟’جج نے کہا، ‘میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے دکھائیں کہ کس قانون کے تحت مذہبی مقامات  کے باہر کسی کے مظاہرہ  کرنے  پر پابندی ہے؟’

جج نے وکیل سے پوچھا کہ کیا آزاد کے ذریعے  کیے گئے کسی تشدد  کا کوئی ثبوت ہے؟ انہوں نے پوچھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ دہلی پولیس اتنی پچھڑی ہوئی ہے کہ ان کے پاس کسی ثبوت کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے؟ چھوٹے معاملوں میں بھی دہلی پولیس کے پاس ریکارڈیڈ ثبوت ہوتے ہیں تو اس معاملے میں کیوں نہیں؟