خبریں

کشمیر میں جو بچے شدت پسند ہو گئے ہیں، ان کو کیمپ میں رکھنے کی ضرورت: بپن راوت

ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے ایک پروگرام میں کہا کہ وادی میں شدت پسندی سے نپٹنے کے لیے سب سے پہلےاس تصور کو پھیلانے والوں کی شناخت کر کے ان پر کارروائی کیے جانے کی ضرورت ہے۔شدت پسندی سے متاثر بچوں کو باقی بچوں سے الگ کیا جانا چاہیے۔

چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ کشمیر میں 10 اور 12 سال کے چھوٹے بچوں کو شدت پسند بنایا جا رہا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جمعرات کو نئی دہلی میں منعقد دو روزہ ‘ رائے سینا ڈائیلاگ ‘ پروگرام میں سی ڈی ایس راوت نے کہا کہ جو بچے پوری طرح سے شدت پسند بن گئے ہیں، ان کی شناخت کر کے ان کو ایسے کیمپ میں رکھنے کی ضرورت ہے، جہاں سے وہ واپس مین اسٹریم  میں لوٹ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے لوگوں کو کٹر بنانے والوں کی شناخت کر کے ان پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دوران ان سے پوچھا گیا کہ اگر ملک میں شدت پسندی کے خلاف مہم اثردار ثابت نہیں ہو رہی ہے تو دہشت گردی پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟

اس کے جواب میں سی ڈی ایس نے کہا، ‘ شدت پسندی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو لوگوں کو شدت پسند  بنا رہے ہیں۔ اسکولوں میں، یونیورسٹی میں، مذہبی مقامات میں ایسے لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کے گروپ ہیں جو شدت پسندی پھیلا رہے ہیں۔ آپ کو سب سے پہلے نبض پکڑنا ہوگا۔ آپ کو ایسے لوگوں کی شناخت کر کے ان کو لگاتار الگ تھلگ کرنا ہوگا۔ ‘

انہوں نے کہا، یہ اسکولوں، یونیورسٹی، مذہبی مقامات ہرجگہ ہو رہا ہے۔ ایسے کچھ لوگوں کے گروپ ہیں، جو یہ پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی شناخت کر کے دوسرے لوگوں کو آہستہ آہستہ ان سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، لوگوں کو شدت پسند بنائے جانے سے روکنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا جانا چاہیے۔ سب سے پہلے پوری طرح شدت پسند بن چکے لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔

راوت نے کشمیر کی مثال دیتے ہوئے کہا، ہم کشمیر میں جو دیکھ رہے ہیں، ہم وہاں لوگوں کو شدت پسند بنتے دیکھ رہے ہیں۔ آج چھوٹے-چھوٹے بچوں تک کو شدت پسند بنایا جا رہا ہے۔ 10 سے 12 سال تک کے بچے، بچیوں کو شدت پسند بنایا جا رہا ہے۔ بپن راوت نے کہا، ‘ ان لوگوں کو بھی آہستہ آہستہ اس شدت پسندی  سے الگ کیا جا سکتا ہے لیکن دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں، جو پوری طرح سے شدت پسند بن گئے ہیں، جن کو الگ کرکے ایسے کیمپ لے جانے کی ضرورت ہے، جہاں سے وہ مین اسٹریم  میں لوٹ سکیں۔ ‘

سی ڈی ایس نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں پتہ لگانا ہوگا کہ کن لوگوں میں شدت پسندی کا کتنا حصہ ہے۔ جو لوگ پوری طرح شدت پسند  بن چکے ہیں، ان سے کام شروع کرنا ہوگا۔ ان کو شدت پسندی کے خلاف پروگراموں میں شامل کرنا ہوگا۔ 12 سال کے لڑکے-لڑکیوں کو بھی شدت پسندی کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کو آہستہ آہستہ شدت پسندی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ‘ڈی ریڈکلائزیشن کیمپ ‘ بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا، ‘ آپ کو بتا دوں کہ پاکستان بھی یہی کر رہا ہے۔ وہاں ڈی ریڈکلائزیشن کیمپ ہیں کیونکہ کچھ دہشت گرد تنظیم اس کو ہی نقصان پہنچانے لگی ہیں۔ ‘ وادی میں پیلیٹ گن کے استعمال پر جنرل راوت نے کہا، ‘ فوج پیروں پر ہی نشانہ بناتی ہے،لیکن جب لوگ پتھر اٹھانے کے لئے نیچے جھکتے ہیں، تب ان کے چہروں پر بھی چوٹ پہنچتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیلیٹ گن سے لگی  چوٹوں  کے لیے آرمی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ‘

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ہندوستانی فوج کشمیر میں کچھ زیادہ ہی سختی نہیں کرتی ہے؟ جنرل راوت نے کہا، ‘ اس طرح کا نظریہ بنایا گیا ہے۔ جب (1990 کے وقت)پراکسی وار لڑی جا رہی تھی، تب فوج نے سختی کی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ‘ انھوں نے یہ بتاتے ہوئے کہ ایک دہشت گرد کو مارنے میں 3 فوجی شہید ہوتے ہیں،کہا،’اگر ہم اتنی ہی سختی کر رہے ہوتے، تب اتنی اموات نہیں ہوتیں۔’

سی ڈی ایس نے پاکستان کے نام کا ذکر کئے بغیر کہا کہ ہمیں دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے ٹھیک اسی طرح کا رخ اپنانا ہوگا، جیسا امریکہ نے 9/11 حملہ ہونے کے بعد اپنایا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘ ہمیں دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا اور ایسا صرف اسی طریقے سے کیا جا سکتا ہے جو طریقہ امریکہ نے 9/11 حملے کے بعد اپنایا۔ انہوں نے (امریکی نے) دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی۔ ‘

سی ڈی ایس نے کہا، ‘ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دہشت گردوں کے ساتھ-ساتھ ان سبھی کو الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کی فنڈنگ یا اس کا بچاؤ کرتے ہیں۔ ان کو سزا دینا ہی ہوگا۔ ‘ انہوں نے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ امن سمجھوتہ کے بارے میں کہا کہ ایسا سمجھوتے میں امن و امان  قائم کرنے کی گارنٹی لی جانی چاہیے۔

جنرل راوت نے کہا، ‘ آپ کو (افغانستان میں) سبھی کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنا ہے، اگر آپ کو ان کے ساتھ یہ کرنا ہے تو آپ کو امن قائم  کرنا ہوگا۔ طالبان ہو یا دہشت گردی میں ملوث کوئی بھی تنظیم، ان کو دہشت کا منصوبہ چھوڑنا ہوگا، ان کو مین اسٹریم  کی سیاست میں آنا ہی ہوگا۔ ‘

رائے سینا ڈائیلاگ پہلی بار 2015 میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن تھنک ٹینک نے ہندوستانی وزارت خارجہ کے تعاون سے شروع کیا تھا۔ ہرسال اس میں الگ الگ ممالک کے سربراہ  اور وزیر خارجہ پہنچتے ہیں۔ اس سال 17 ممالک کے وزیر اور خارجہ پالیسی کے جانکار پروگرام میں پہنچے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)