خبریں

جموں کشمیر میں انٹرنیٹ کا استعمال فحش فلمیں دیکھنے کے لیے ہوتا ہے: نیتی آیوگ کے رکن

نیتی آیوگ کے رکن  وی کے سارسوت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔ وہاں جاری احتجاج اور مظاہرے پر انہوں نے کہا کہ جے این یو ایک سیاسی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ یہ 10 روپے سے لےکر 300 روپے تک فیس اضافہ  کا مدعا نہیں ہے۔ ہر کوئی لڑائی جیتنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں سیاسی پارٹیوں  کا نام نہیں لوں گا۔

فوٹو: @VKSaraswat1949

فوٹو: @VKSaraswat1949

نئی دہلی: نیتی آیوگ کے رکن  وی کے سارسوت نے کہا کہ جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ خدمات پر لگی پابندی کامعیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا کیونکہ وہاں پر انٹرنیٹ کا استعمال صرف فحش فلمیں دیکھنے کے لیے کیا جاتا تھا۔بتا دیں کہ، گزشتہ 5 اگست کو جموں وکشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے وہاں انٹرنیٹ کے ساتھ موبائل اور براڈ بینڈخدمات پر پوری طرح سے پابندی لگا دی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، دھیروبھائی امبانی انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی (ڈی اے-آئی آئی ٹی)کے سالانہ کنووکیشن  سے الگ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تقریب کے مہما ن خصوصی  رہے سارسوت نے کہا، ‘یہ جتنے رہنما وہاں جانا چاہتے ہیں، وہ کس لیے جانا چاہتے ہیں؟ وہ جیسے مظاہرہ  دہلی کی سڑکوں پر ہو رہا ہے، وہ کشمیر میں سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں۔ اور جو سوشل میڈیا ہے، وہ اس کو آگ کی طرح استعمال کرتا ہے۔ تو آپ کو وہاں انٹرنیٹ نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟ اور ویسے بھی آپ انٹرنیٹ میں وہاں کیا دیکھتے ہیں؟ کیا ای-ٹیلنگ ہو رہا ہے وہاں پہ؟ وہاں فحش فلمیں دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے آپ لوگ۔’

ان کے بیان کا مطلب پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ‘میں یہ بتا رہا ہوں کہ اگر کشمیر میں انٹرنیٹ نہیں ہے تو اس سے معیشت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔’سارسوت اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ اگر ہندوستان  کی ترقی  کے لیے ٹیلی مواصلات اہم تھا، تو انہوں نے جموں کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کو کیوں بندکر دیا تھا۔

سارسوت نے کہا، ‘کشمیر میں انٹرنیٹ بند ہے، لیکن کیا گجرات میں انٹرنیٹ دستیاب  نہیں ہے؟ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کرنے کی وجہ الگ ہے۔ اگرآرٹیکل 370 کو ہٹایا جانا تھا اور اگر کشمیر کو آگے لے جانا تھا تو ہم جانتے ہیں کہ وہاں ایسے عناصرہیں جو اس طرح کی جانکاری کا غلط طریقے سے استعمال  کریں گے، جو نظم و نسق  کومتاثر کرےگا۔’

اس کے ساتھ دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں جاری احتجاج اور مظاہرے  پر انہوں نے کہا، ‘جے این یو ایک سیاسی جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ یہ 10 روپے سے لےکر 300 روپے تک فیس اضافہ کا مدعا نہیں ہے۔ ہر کوئی لڑائی جیتنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں سیاسی پارٹیوں  کا نام نہیں لوں گا۔’

اس دوران انہوں نے جے این یو کو ایک لیفٹ کی طرف  جھکاؤ رکھنے والا ادارہ بتایا اور کہا کہ 600 اساتذہ میں سے 300 شدت پسند  لیفٹ گروپ  کے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ، سارسوت جے این یو کے چانسلر بھی ہیں۔انہوں نے کہا، ‘جے این یو کو بند کرنا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم ایک جمہوریت  ہیں اور ہمیں جمہوری  طریقے سے جد وجہد کوحل کرنا ہوگا۔ ہماری سرکار،تعلیمی محکمہ اور میرے ساتھ اس سے جڑے سبھی لوگ اس سمت  میں اسے سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم ایسے سخت قدم نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن، 1980 کی دہائی  میں، جب (سابق وزیر اعظم)اندرا گاندھی چانسلر تھیں تب اسی طرح کی وجہوں سے جے این یو 45 دنوں تک بند رہا…اور اس وقت تہاڑ میں 800 اسٹوڈنٹ جیل گئے تھے۔’انہوں نے کہا کہ جے این یووی سی  ایم جگدیش کمار بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔

شہریت قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہر ے پر سارسوت نے کہا، ‘پچھلے تین مہینوں سے ہو رہے مظاہرے اور دنگوں میں برباد ہوئے وقت کے بارے میں سوچیں۔ کتنے کارخانے بند رہے، ٹریفک روکا گیا، اسپتال بند رہے، یہ سب جی ڈی پی میں رول ادا کرتے ہیں ۔’

انہوں نے کہا، ‘پچھلے سال اکتوبر سے جے این یو میں کام بند ہے… نقصان معیشت کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو پیسہ دے رہے ہیں، لیکن ان سے کوئی آؤٹ پٹ نہیں ہے۔ ہڑتال کے باوجود سرکاری اساتذہ  کو ان کا بقایہ  مل رہا ہے۔ آؤٹ پٹ کیا ہے… یہ سب معیشت کومتاثر کرتا ہے۔’