خبریں

شہریت ترمیم قانون پر حامد کرزئی نے کہا-سارے افغانی مظلوم ہیں

شہریت ترمیم قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آئے غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دینے کے فیصلے کے خلاف بولتے ہوئے سابق افغانی صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ہندوستان کو تمام  افغانیوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا چاہیے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ذریعے متنازعہ شہریت ترمیم قانون پر سوال اٹھانے کے بعد اب افغانستان نے بھی اس پر اپنے ردعمل کا اظہار  کیا ہے۔نئے شہریت ترمیم قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آئے ہندو، سکھ سمیت دوسرے غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دینے کے فیصلے کے خلاف بولتے ہوئے سابق افغانی صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ہندوستان کو تمام افغانیوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا چاہیے۔

دہلی تشریف لائے کرزئی نے دی  ہندو کو بتایا، ‘افغانستان میں کوئی مظلوم  اقلیت نہیں ہے…پورا ملک ہی مظلوم  ہے۔ ہم لمبےعرصے سے جنگ اور جد وجہدمیں ہیں۔ افغانستان میں سبھی مذاہب– مسلم اور ہندو اور سکھ جو ہمارے تین اہم مذاہب  ہیں، اس کے شکار رہے ہیں۔’پچھلے ہفتے سرکار کے رائےسینا ڈائیلاگ کے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرنے والے کرزئی نے کہا، ‘ہندوستان میں جو تصور ہے اس کے برعکس  افغانستان میں لوگ محسوس کرتے ہیں۔ جب میں صدر بنا توتقریباً 90 سال کے ایک اسکول کے پرنسپل مجھ سے ملنے آئے، جنہیں میں کئی سالوں  سے جانتا تھا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے کہا، ‘میری صرف ایک گزارش ہے؛ہمارے ہندوؤں اور سکھوں نے بہت تکلیف جھیلا ہے (طالبان کی حکمرانی کے دوران)۔ وہ  اس کے زیادہ  کے حقدار ہیں، اس لیے وہ پاکستان یا ہندوستان، جہاں کہیں بھی گئے ہوں انہیں واپس لائیے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘افغانستان میں ایسا احساس  ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ہندوستان میں بھی مسلمان افغانیوں کے لیے اسی طرح کا احساس  ہوگا۔’2011 میں وزارت خارجہ کے اندازے کے مطابق، ہندوستان میں افغانستان سے 18000سے زیادہ پناہ گزین ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سکھ اور ہندو ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کئی لوگ 2013 میں بھی ہندوستان بھاگ آئے تھے۔خاص بات یہ ہے کہ ہندوستان کے دوست مانے جانے والے کرزئی نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ہندوستان میں مسلم افغانیوں کے مفاد کا بھی تحفظ کیا جائےگا۔

شیخ حسینہ کی طرح ہی کرزئی نے کہا کہ مودی سرکار کے ذریعے شہریت ترمیم قانون لانا ہندوستان کا فیصلہ ہے اور اس کے لیے وجہ ہو سکتی ہیں اور یہ قانون پارلیامنٹ سے پاس کیا گیا ہے۔واضح ہو کہ پچھلے سال دسمبر مہینے میں پاس کئے گئے شہریت ترمیم قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے 2015 کے پہلے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی  کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام  کیا گیا ہے۔

سرکار کی دلیل ہے کہ جو لوگ اس کمیونٹی کے مظلوم  ہوں گے انہیں شہریت دی جائےگی۔ حالانکہ قانون میں کہیں بھی ‘مظلوم’لفظ کا ذکر نہیں ہے۔ کئی ماہرین  نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر ہم کس بنیاد پر یہ طے کر پائیں گے کہ کون مظلوم  ہے اور کون نہیں۔اس قانون کو ‘غیر آئینی ’ اور ‘برابری  کے حق  کی خلاف ورزی  کرنے والا’ قرار دیتے ہوئے کئی لوگوں نے اسے سپریم کورٹ  میں چیلنج  کیاہے۔