خبریں

ہندوستان: خواتین سیاست دانوں کو ٹوئٹر پر بڑے پیمانے پر نازیبا سلوک کا کرنا پڑتا ہے سامنا

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بیشتر ان سیاست دانوں کو نشانے پر لیا گیا جن کا تعلق حکمراں  بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں تھا۔

Twitter

نئی دہلی : حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ (Troll Patrol India: Exposing Online Abuse Faced by Women Politicians in India)میں کہا ہے کہ ہندوستان میں ہونے والے گزشتہ عام انتخابات کے دوران خواتین سیاست دانوں کو ٹوئٹر پر روزانہ اوسطاً ایک سو نازیباٹوئٹس بھیجے گئے۔اس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خواتین سیاست دانوں  کو ٹوئٹر پر چونکا دینے والا پیمانے پرنازیبا سلوک  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مطالعہ کراؤڈسورسنگ، مشین لرننگ اور ڈیٹا سائنس کے استعمال کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اس میں 95 خواتین سیاست دانوں  کو بھیجے گئے لاکھوں ٹوئٹ کا تجزیہ کیا گیاتھا۔

 رپورٹ کے مطابق ہر سات میں سے ایک ٹوئٹ ایسا تھا جن میں انہیں گالیاں یا دھمکیاں دی گئی تھیں۔یہ ٹوئٹس گزشتہ برس مارچ اور مئی کے درمیان  95 ہندوستانی خواتین سیاست دانوں کوبھیجے گئے تھے۔ایمنسٹی نے سات ملین ٹوئٹس میں سے ایک لاکھ 14ہزار 716ٹوئٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ،جن خواتین سیاست دانوں کو یہ ٹوئٹس بھیجے گئے تھے ان میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا اور اسمبلیوں کی اراکین نیز سیاسی پارٹیوں کی عہدیدار، ترجمان اور موجودہ اور سابق وزرائے اعلیٰ شامل تھیں۔

رپورٹ کے مطابق تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مجموعی طور پر 13.8فیصد ٹوئٹس میں گالی گلوچ کا استعمال کیا گیا۔ جب کہ مسلم خواتین سیاست دانوں کی تقریباً 95 فیصد ٹرولنگ ان کے مذہب کی وجہ سے کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بیشتر ان سیاست دانوں کو نشانے پر لیا گیا جن کا تعلق حکمراں  بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی سے تعلق رکھنے والی خواتین سیاست دانوں کے مقابلے میں دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سیاست دانوں کو56.7 فیصد زیادہ گالیاں دی گئیں۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیامان لاکٹ چٹرجی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسی خاتون سیاست دان کو صرف اس بنیاد پرکہ وہ عورت ہے آن لائن نشانہ بنانا قطعی درست نہیں ہے۔ خواہ ایسا کرنے والے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں۔ ان کا کہنا تھا،آپ سیاسی نظریات پر حملہ کیجیے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن کسی کی ذاتیات پر حملہ نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ خواتین کے وقار کے خلاف ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں خواتین سیاست دانوں کو زیادہ توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ برطانیہ کے مقابلے 13.8فیصد اور امریکہ کے مقابلے 7.1 فیصد زیادہ ہے۔ہندوستانی سیاست دانوں کی ٹرولنگ کرنے والے انہیں فحش گالیاں بھی دیتے ہیں۔ ان کے لیے ‘چڑیل‘، ‘طوائف‘ اور ‘فاحشہ‘ جیسے الفاظ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں پاکستان بھیجنے کی بھی مسلسل دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذکورہ نتائج کے بارے میں ٹوئٹر کی انتظامیہ کو نومبر میں ہی مطلع کیا تھا اور کافی طویل خط و کتابت کے بعد ٹوئٹر نے ایمنسٹی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹکنالوجی کو بہتر بنایا ہے اور متعدد اکاؤنٹس کو معطل یا بلاک کردیے ہیں۔ایمنسٹی کا خیال ہے کہ ‘ٹوئٹر خواتین کے آن لائن حقوق کا احترام کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔‘اس نے ٹوئٹر کو ہندوستان  کی علاقائی زبانوں پر مزید توجہ دینے کا مشورہ بھی دیا کیوں کہ علاقائی زبانوں میں خواتین کے خلاف آن لائن تشدد کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کو خواتین کے خلاف تشدد پر قابو پانے کی اپنی کوششوں کو زیادہ بہتر بنانے اور مواد کو شائع کرنے کے عمل کو زیادہ شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔

(ڈی ڈبلیو اردو کے ان  پٹ کے ساتھ)