خبریں

جموں وکشمیر: امریکی حکام نے ہندوستان سے سیاسی قیدیوں کو رہا کر نے کی اپیل کی

ہندوستانی حکومت کے ذریعے منعقد رائے سینا ڈائیلاگ میں حصہ لینے کے بعد واپس لوٹ کر جنوبی اوروسط ایشیا کی اسسٹنٹ سکریٹری ایلس ویلس نے شہریت ترمیم قانون کو لےکرملک گیر احتجاج  پر کہا کہ ایک مستحکم جمہوری تجزیہ ہونا چاہیے چاہے وہ سڑکوں پر ہو، چاہے سیاسی اپوزیشن ، میڈیا یا عدالتوں کے ذریعے ہو۔

ایلس ویلس، فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

ایلس ویلس، فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

نئی دہلی: ایک سینئرامریکی حکام نے ہندوستانی  حکومت سے جموں وکشمیر میں حراست میں لیے گئے سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے اور امریکی ڈپلومیٹ کے لیے یونین ٹریٹری میں باقاعدگی سے جانے دینے کی اپیل کی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس مہینے کی شروعات میں نئی دہلی میں ہندوستانی حکومت کے ذریعے منعقد رائے سینا ڈائیلاگ میں حصہ لینے کے بعد واپس لوٹ کر جنوبی اور وسط ایشیا کی اسسٹنٹ سکریٹری ایلس ویلس نے کہا کہ وہ یونین ٹریٹری میں لگاتار لیے جا رہے فیصلوں کو دیکھ کر خوش ہیں، جس میں انٹرنیٹ خدمات کی واپسی بھی شامل ہے۔

ویلس نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک پریس کانفرنس  میں کہا، ‘جموں وکشمیر پر مجھے کچھ اقدام کو دیکھ کر خوشی ہوئی جس میں کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کو جزوی طورپر بحال کرنا شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے سفیر اور دوسرے ملکوں کےڈپلومیٹ کا جموں وکشمیر کا سفر کچھ ایسا ہے جو مجھے پتہ ہے کہ پریس میں بڑے پیمانے پر کور کیا گیا تھا۔ ہم اسے ایک مفید قدم کےطورپر دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے سفیروں اور ڈپلومیٹ کے ذریعےباقاعدگی سے وہاں  جانے  کی اجازت دینے اور ان سیاسی رہنماؤں کو جلد سے جلد چھوڑنے کے لیے حکومت سے اپیل کرتے ہیں، جنہیں بنا کسی الزام کے حراست میں لیا گیا ہے۔’

اس سے ایک دن پہلے پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی نے بھی سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مدعا اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، انٹرنیٹ بحال کرنے اور گھاٹی میں لوگوں کا ڈر دور کرنے سے حالات نارمل  ہوں گے، نہ کہ وزراء کے فوٹو کھنچوانے سے۔بتا دیں کہ، جموں کشمیر کے حالات کو نارمل دکھانے اور عام لوگوں تک پہنچ کو دکھانے کے لیے مرکزی حکومت کے وزیر وں  کاگروپ  جموں وکشمیر کے دورے پر ہے اورمختلف سرکاری تقریبات میں اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں۔

ویلس کا یہ تبصرہ مرکزی حکومت کے ذریعے جموں کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کو بحال کئے جانے کے ایک دن پہلے آیا ہے۔ حالانکہ، سوشل میڈیا سائٹس پرابھی بھی پابندی نافذ ہے۔بتا دیں کہ 10 جنوری  کو سپریم کورٹ نے اپنے ایک بےحد اہم فیصلے میں جموں و کشمیر انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر پابندی سے متعلق سبھی احکام پر غور کریں۔ یہ پابندی گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے لگائی گئی تھی۔جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ اور موصلاتی خدمات پر پابندی لگانے پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ بنا کسی خاص مدت اور غیرمتعینہ وقت کے لئے انٹرنیٹ بین کرنا مواصلاتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ دفعہ 144 کے تحت جاری کئے گئے تمام احکام کورٹ کے سامنے پیش کئے جائیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت بار بار حکم جاری کرنا اقتدار کا غلط استعمال ہوگا۔اس دوران کورٹ نے یہ بھی کہا کہ انٹرنیٹ کا حق آئین کےآرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار کی آزادی کا حصہ ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کاکوئی بھی حکم عدالتی جانچ‌کے دائرے میں ہوگا۔اس کے تقریباً ایک ہفتے بعد 18 جنوری کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے پہلی وہائٹ لسٹ کو عام کرتے ہوئے جموں  علاقے کے تمام دس ضلعوں اور وادی کے دو ضلعوں میں 2 جی خدمات کو پھر سے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا

وہیں، سنیچر سے کشمیر گھاٹی میں پوسٹ پیڈ کے ساتھ ہی پری پیڈ فون پر 2جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کر دی گئیں۔ حالانکہ، سوشل میڈیا سائٹوں تک گھاٹی کے لوگوں کی پہنچ نہیں ہوگی اور طے شدہ ویب سائٹوں تک ہی ان کی رسائی ہو سکےگی۔شہریت قانون کو لے کر ملک گیراحتجاج پر بولتے ہوئے ویلس نے کہا، ‘قانون  پر کام چل رہا ہے اور میں کہوں گی کہ ایک مستحکم جمہوری تجزیہ ہونا چاہیے چاہے وہ سڑکوں پر ہو، چاہے سیاسی اپوزیشن ، میڈیا یا عدالتوں کے ذریعے ہو۔ہم قانون کے تحت یکساں تحفظ کے اصول  کی اہمیت کو نشان زد کرتے ہیں۔’

ویلس نے کہا کہ کہا کہ ہندوستان غیر فعال غیر ملکی پالیسی  سے دور جا رہا ہے اور زور شور سے اپنے مفاد کو ترجیح دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ صاف ہے کہ پچھلی دودہائی سے ہندوستان اپنے پالیسی کی توسیع کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ غیر فعال غیرملکی پالیسی سے دور ہوکر زور شور سے اپنے مفاد پر دھیان دے رہا ہے۔ویلس نے کہا کہ دفاعی تعاون ، دفاعی مہم ، خلا، دہشت گردی  کے خلاف لڑائی، کاروبار، لوگوں کے بیچ آپسی رابطہ پر تیز رفتاری کے ساتھ ہی ہندوستان- امریکہ بحریہ تعاون کا معیار اورتسلسل، خاص طور سے جانکاری کو شیئر کرنے میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں  کامقصد ایک ایساکاروباری سمجھوتہ حاصل کرنے پر ہے جو غیر جانبداری اورلین دین  کو بڑھاوا دیتا ہو۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)