فکر و نظر

شاہین باغ کے مظاہرے سے کیوں پریشان ہیں سرکار اور ان کے حمایتی؟

 مودی حکومت اور بی جے پی حامیوں کے پریشان ہونے کی ایک اہم  وجہ یہ ہے کہ اس تحریک سے کہیں نہ کہیں  یہ پیغام گیا ہے کہ مسلم خواتین ان کے ہاتھ سے’ نکل’ گئی ہیں۔ دراصل تین طلاق کے خلاف قانون پاس کروانے کے بعد ان کو لگنے لگا تھا کہ مسلم عورتیں ان کے ساتھ آ گئی ہیں۔ ’

فوٹو بہ شکریہ: مہربان ڈاز

فوٹو بہ شکریہ: مہربان ڈاز

دہلی نوئیڈا بارڈر پر واقع شاہین باغ میں عوام ،بالخصوص مسلمان عورتیں شہریت ترمیم قانون (2019)اور این آرسی کے خلاف ایک مہینے سے زیادہ سے احتجاج پر ہیں۔ اس بیچ ان کو کئی بار وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ پولیس نےدھمکی دی اور نوٹس بھی جاری کی۔ احتجاج میں شامل لوگوں کو ہٹانے کے لئے مقامی’ریسڈینٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن’ کا سہارا لیا گیا۔ ان مظاہرین  کو وہاں سے ہٹانے کے لئے کچھ’ متاثرین’ نے ہائی کورٹ کا بھی دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ لیکن کورٹ نے اس معاملے میں کوئی خاص ہدایت نہیں دی، معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔

اسی بیچ تحریک ختم کروانے کے مقصدسے دہلی کے ایل جی کےساتھ  کچھ مظاہرین کی میٹنگ بھی ہوئی لیکن اس کا بھی کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ تحریک سست پڑنے کے بجائے دن بہ دن تیز ہوتی جا رہی ہے۔جو لوگ شاہین باغ میں ہو رہی تحریک سے خوش نہیں ہیں، وہ اور ان کےخیرخواہ-جس میں مرکزی حکومت، ان کی پارٹی کے لوگ اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ-اس تحریک کو لگاتار بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ اس مظاہرہ کی وجہ سے ‘ عام لوگوں’کو پریشانی ہو رہی ہے۔’یہ مظاہرین کرایے پر لائے گئے  ہیں’، جیسی کہانیاں بھی گڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔

مظاہرین کے خلاف طرح-طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔اس میں اوپر سے لےکر نیچے تک کے لوگ شامل ہے۔اس میں سب سے اہم کردار بی جے پی  آئی ٹی سیل کے قومی انچارج امت مالویہ کا ہے۔ غور طلب  ہے کہ مالویہ کے دعووں کو مین اسٹریم میڈیا جانچ‌کےبغیرپیش  کر رہا ہے۔ مالویہ لگاتار سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹوئٹر کے ذریعے شاہین باغ کے بارے میں طرح طرح کی فرضی کہانیاں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں انہوں نے اپنی’ٹرول آرمی’ کی بدولت شاہین باغ شیم ، شاہین باغ پروٹسٹ ایکسپوزڈ اور شاہین باغ  کی بکاؤ عورتیں جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کروائے۔

گزشتہ دنوں مالویہ نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں ایک نوجوان کسی کوشاہین باغ کے مبینہ راز بتا رہا ہے۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کالندی کنج (شاہین باغ) میں جو عورتیں دھرنا پر بیٹھی ہیں، وہ 700-500 روپے یومیہ لے رہی ہیں۔  ان لوگوں کی شفٹ تبدیل ہوتی ہے اور اس کے پیچھے کانگریس پارٹی ہے۔دلچسپ بات ہے کہ یہ ویڈیو کہاں کا ہےاور کب کا ہے، دعویٰ کرنے والے لوگ کون ہیں،اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ اس کے باوجود میڈیا نے، خاص طورپر ہندی میڈیانے، اس کو شاہین باغ کے ‘آخری سچ ‘کی طرح پیش کیا۔ انڈین ایکسپریس گروپ کی ہندی ویب سائٹ ‘جن ستا’ نے بھی اس خبر کو من و عن چھاپا۔

اسٹوری کی ہیڈنگ میں یہ بھی نہیں لکھا کہ یہ امت مالویہ کا دعویٰ ہے۔ جب اس خبر کو لےکر جن ستا پر سوال اٹھائے گئے، تو ویب سائٹ نے اس کو ہٹالیا۔ اسی بیچ ایک وکیل نے مظاہرین کی طرف سے مالویہ کو ہتک عزت کا لیگل نوٹس بھیجاہے۔ایسا نہیں ہے کہ صرف شاہین باغ میں مظاہرہ ہو رہے ہیں۔ دوسری جگہوں پر شاہین باغ سے بھی بڑی-بڑی تحریکات جاری ہیں۔ مغربی بنگال اور آسام میں لگاتارسی اے اے-این آر سی مخالف تحریک ہو رہی ہیں۔ شمال مشرق کی الگ الگ ریاستوں اورشہروں اور گاؤں میں تحریک ہو رہی ہیں۔ لیکن نشانے پر سب سے زیادہ شاہین باغ ہے۔شاہین باغ کی تحریک کو نشانہ بنانے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔

اول تو یہ کہ دیر سے ہی سہی لیکن اس تحریک کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں جس طرح کا مثبت کوریج ملا ، اس کو دیکھ‌کر حکومت اور اس کے حامیوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس کو کیسے کاؤنٹر کریں؟ کیونکہ اس تحریک کا کوئی رہنما یا مرکزی قیادت نہیں ہے، اس لئے بھی اس کو حکومت کے ذریعے ‘مینج’ کرنا آسان نہیں ہے۔آخر حکومت یا اس کے نمائندہ کس سے ڈیل کریں؟اس کی ایک مثال 2 جنوری کو دیکھنےکو ملی۔ اس شام ‘مینجنگ یا کوآرڈنیشن کمیٹی’کے ایک ممبر نے مظاہرہ کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

تھوڑی دیر کے لئےمیڈیا نے بھلےہی’ شاہین باغ تحریک ختم’ جیسی بریکنگ نیوز چلائی، لیکن گراؤنڈ پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ دھرنا پر بیٹھی خواتین نے صاف لفظوں  میں کہا اور آج بھی کہہ رہی ہیں کہ جب تک سی اے اے، این آر سی (اور اب این پی آر بھی) کو واپس نہیں لےلیا جاتا وہ اپنی تحریک جاری رکھیں‌گی۔

فوٹو : مہتاب عالم

فوٹو : مہتاب عالم

اس تحریک سے مودی حکومت اور بی جے پی حامیوں کے پریشان ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پیغام جاتا ہے کہ مسلم خواتین ان کے ہاتھ سے’ نکل’ گئی ہیں۔ تین طلاق کے خلاف قانون پاس کروانے کے بعد ان کو لگنے لگا تھا کہ مسلم عورتیں ان کے ساتھ آ گئی ہیں۔ اس تحریک نے اس دعویٰ کو خارج کیا ہے۔ پارٹی نے بڑے زور و شور سے اعلان کیا تھا کہ ‘ مسلم خواتین مودی جی کے ساتھ ہیں۔’ شاہین باغ کی تحریک اس دعوے پر بھی چوٹ کرتی ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں مسلم عورتوں نے مودی اور ان کی پارٹی کی حمایت میں’خاموش ووٹنگ’ کی تھی۔

اس کے علاوہ یہ تحریک اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مسلم عورتوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ اگر وہ تین طلاق کے خلاف احتجاج کر سکتی ہیں تو ان کو سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کےخلاف آواز بلند کرنے اور جدوجہد کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ قابل ذکر بات ہے کہ شاہین باغ کی عورتیں یہ بھی پوچھ رہی ہیں کہ جو مودی جی مسلم عورتوں کے لئے ہمیشہ’ فکرمند’ رہتے تھے وہ آج ان کی بات کیوں نہیں سن رہے ہیں؟ گزشتہ سنیچر کوان عورتوں نے اپنے’من کی بات ‘ کہنے کے لئے وزیر اعظم مودی کو پوسٹ کارڈ لکھ‌کر شاہین باغ میں’چائے پر چرچہ’ کے لئے مدعو بھی کیا۔

تمام کوششوں کے باوجود شاہین باغ کو کسی خاص رنگ میں رنگا نہیں جاسکا ہے اور اس کو کسی پارٹی یاخاص ادارہ سے نہیں جوڑا جا سکا ہے۔ یہ تحریک بھلےہی مسلم عورتوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہے لیکن اس میں ہر رنگ، ہر کمیونٹی، ہر علاقےاور ہر مذہب کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس تحریک میں لوگ لاالٰہ الا اللہ،ستشری اکال، جئے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کبھی کسی کو  بولنے سے روکا نہیں گیا ہے۔ الگ الگ نظریہ کے ماننے والے آکر اپنی بات رکھ رہےہیں۔ ایک مرکزی قیادت نہ ہونے وجہ سے کوئی اپنی من مرضی نہیں چلا پا رہا ہے اورجیسے ہی کوئی ایسا کرتا ہوا دیکھا جاتا ہے اسے باہر کر دیا جاتا ہے۔

فوٹو : مہتاب عالم

فوٹو : مہتاب عالم

یہی وجہ ہے کہ دور دراز سے طالب علم، نوجوان، سماجی کارکن، وکیل، فلمی اداکاروں کے علاوہ مزدور-کسان بھی اس تحریک کو اپنی حمایت دینے کے لئے اپنے خرچ پر یہاں پہنچ رہےہیں۔ پچھلے ہفتہ پنجاب کے الگ الگ علاقوں سے سیکڑوں کسان شاہین باغ پہنچے تھے۔12 جنوری کو یہاں تمام مذہبی عقائدکے لوگوں نے ایک ساتھ عبادت کی، جس میں مظاہرین کے علاوہ بڑی تعداد میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اوردوسرے مذاہب کے لوگ شریک ہوئے۔ یہی نہیں فنکارمظاہرین کے ساتھ اپنی ہمدردی ظاہر کرنے لئے طرح-طرح کا انسٹالیشنز لگا رہے ہیں، پوسٹرز بنا رہے ہیں اور ڈراما پیش  کر رہے ہیں۔

ان  سب کی وجہ سے جامعہ نگر-شاہین باغ کے علاقے، جو عام طور پر’مین دہلی’ سے کٹا رہتا ہے، اور دہلی کے دوسرے علاقوں میں رہنے والوں میں جومکالمےکی کمی تھی اس میں تبدیلی آ رہی ہے۔ مظاہرہ کے بہانے لوگ جامعہ نگر اورشاہین باغ میں رہنے والے لوگوں اور ان کے مسائل سے واقف ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً،مسلمانوں اور مسلم علاقوں کے بارے میں جو شبہات تھے یا جو پھیلائے جا رہے تھے ان کا شیرازہ بھی بکھر رہا ہے۔یہی سب موجودہ حکومت، ان کے حامیوں اور ان کے نظریہ کو ہضم نہیں ہورہاہے ۔ اس لئے شاہین باغ کی تحریک کو لگاتار بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لوگ یہاں پہنچ‌کر الگ الگ زبانوں میں، الگ الگ طریقے سے اپنی باتیں رکھ رہےہیں۔

فوٹو بہ شکریہ: مہربان ڈاز

فوٹو بہ شکریہ: مہربان ڈاز

کئی معنوں میں آج کے وقت میں اگر کسی کو’کثرت میں وحدت ‘ کا جیتا-جاگتانمونہ دیکھنا ہو تو اس کے لئے شاہین باغ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔حکومت اور ان کے حامیوں  کی پریشانی کا ایک سبب یہ بھی کہ اتنے دنوں سے تحریک چل رہی ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں، لیکن افراتفری، تشدد،مارپیٹ یا چھیڑخانی کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ جس دن  70000 لوگ شاہین باغ میں اکٹھاہوئے تھے، اس دن بھی ایسا ایک واقعہ سامنے نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ کی تحریک ملک بھر میں احتجاج کرنے والے لوگوں کے لئے مثال بن گئی ہے۔

ہر انصاف پسند آدمی کم سے کم ایک بار شاہین باغ ہو آنا چاہتا ہے۔ اس مضمون کے لکھے جانے تک ملک کے 50 سے زیادہ شہروں اور علاقوں میں اپنا-اپنا ‘شاہین باغ’ شروع ہو چکا ہے اور ایسی تحریکوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ خود راجدھانی دہلی میں ایسی آدھا درجن کوششیں ہو چکی ہیں، اس کے باوجود  کہ دہلی میں شدید سردی پڑرہی ہے۔جہاں تک اس تحریک کی وجہ سے ‘عام لوگوں ‘ کو ہو رہی پریشانی کاسوال ہے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ کہ شاہین باغ اور دوسرے مسلم علاقوں کے لوگوں کوسڑکوں پر آکر مظاہرہ کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے؟ اور ایسا کیوں ہے کہ مسلم علاقوں کے لوگ میدان، پارک یا کسی اور کھلی جگہ میں جاکر مظاہرہ نہیں کرتے؟ ایسااس لئے ہے کہ زیادہ تر مسلم علاقوں میں’کھلی ‘ جگہ نہیں ہوتی۔

ایسےمیں وہ سڑک پر نہ آئیں تو کیا کریں؟ اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ سڑک کے بجائے کسی ‘ کھلی’جگہ پر مظاہرہ کریں(مثلاًعید گاہ وغیرہ) توان کو ہٹایا نہیں جائے‌گا؟ گزشتہ دنوں جب مسلم خواتین نے مشرقی دہلی کے جعفر آبادعلاقے کی عید گاہ میں دھرنا دینے کی کوشش کی، تو پولیس نے ان کو فوراً ہٹا دیا۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ دراصل ان کی لڑائی پریشانی کے بھی خلاف ہے۔ آج اگر وہ یہ تحریک نہیں کریں‌گی توآنے والے سالوں میں نہ صرف ان کو بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے‌گا۔ ان کے مطابق سڑک بندہونے سے ہونے والی پریشانی تو فوری ہے لیکن جس پریشانی کے خلاف شاہین باغ کی عورتیں احتجاج کر رہی ہیں اور سڑک پر ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے لئے یہ ان کی زندگی اور وجود کا سوال ہے۔