خبریں

کیا ملک گیر این آر سی نافذ کر نے کو لےکر امت شاہ نے پارلیامنٹ میں جھوٹ بولا تھا؟

گزشتہ  منگل کو مرکزی وزیرنتیانند رائے نے پارلیامنٹ میں کہا کہ ابھی تک این آر سی کو ملک گیر سطح پر تیار کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔حالانکہ رائے کا یہ بیان مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعے ماضی میں دئے گئےبیانات کے بالکل برعکس ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ(فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گزشتہ  منگل کو مرکزی وزیرنتیانند رائے نے پارلیامنٹ میں کہا،ابھی تک این آر سی کو ملک گیرسطح پر تیار کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں لیاگیا ہے۔حالانکہ رائے کا یہ بیان مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعے ماضی میں دئے گئے بیانات کے بالکل برعکس ہے۔ تقریباً تین مہینے پہلے نومبر 2019 امت شاہ نےراجیہ سبھا میں کہا تھا، سپریم کورٹ کے حکم پر آسام میں این آر سی کی کارروائی  پوری کی گئی۔ جب ملک بھر میں این آر سی نافذ کی جائے‌گی، اس وقت آسام میں بھی یہ کیا جائے‌گا،کسی بھی مذہب کے لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اب یہاں پر بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وزارت داخلہ نے اصل میں اپنا خیال بدل دیا ہے یا این آر سی اور شہریت ترمیم قانون کےخلاف بڑے پیمانے پرمظاہرہ کی وجہ سے حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے؟ یا، جیسا کہ ناقدین کا ماننا ہےکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کہے کچھ اور کرے کچھ؟گزشتہ سال دسمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ملک بھرمیں این آر سی نافذ کرنے کا ان کی حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حالانکہ مودی کےاس بیان پر اعتماد کرنا کافی مشکل ہو رہا ہےکیونکہ وزیر داخلہ امت شاہ نے پہلے ہی کئی بار کہا تھا کہ ملک بھر میں این آر سی نافذ کیا جائے‌گا۔

یہاں تک کی بی جے پی نے لوک سبھا انتخاب 2019 کے منشور میں بھی لکھا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کریں‌گے۔ یہ بھی دلیل دی گئی  کہ مرکزی حکومت این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کے ذریعے ملک گیر این آر سی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔جیسا کہ دی وائر نے رپورٹ کیا تھا کہ این پی آر کی کارروائی  کا خیال سب سے پہلے اٹل بہاری واجپائی کی رہنمائی میں بنی  پہلی این ڈی اے حکومت کے ذریعے لایاگیا تھا۔ اس کا مقصد ملک کے ہرایک باشندے کی شناخت کر کےایک ایسا ڈیٹا بیس بنانا ہےجس میں تمام شماریاتی اور بایومیٹرک تفصیل ہوگی۔

2021 کی مردم شماری کی کارروائی کے ساتھ ہی این پی آر اپ ڈیٹ کیا جائے‌گا۔ وزارت داخلہ نے پہلے کئی بار کہا ہے کہ این پی آر اور این ار سی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑھتی مخالفت کو دیکھتے ہوئےحکومت نے اپنااسٹینڈ بدل لیا اور کہا کہ این ار سی کا این پی آر سے کوئی لینا دینانہیں ہے۔حالانکہ وزارت داخلہ کے اپنے دستاویزوں میں لکھا ہے کہ این پی آر،این آر سی کو نافذ کرنے کا پہلا قدم ہے۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ نے 26نومبر، 2014 کو راجیہ سبھا کو بتایا تھا، این پی آر تمام باشندوں کا ایک رجسٹر ہے جس میں شہری کے ساتھ غیر-شہری بھی شامل ہیں۔ این پی آر ہرباشندے کی شہریت کو تصدیق کرکے ہندوستانی شہریوں کے قومی رجسٹر (این آرآئی سی)کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ ‘

این آر سی اس لئے متنازعہ  ہو گیا ہے کیونکہ اس میں ہندوستانی شہریوں کو کئی دستاویزوں کے ذریعے اپنی شہریت ثابت کرنے کی ضرورت پڑے‌گی، جو کہ غریب طبقےکے لئے مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔شہریت ترمیم قانون، جس میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کےتمام غیر-مسلم مہاجروں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام ہے، اس کے نافذ ہونے کے بعداین آر سی کو شہریت ثابت کرنے والے دستاویز دکھانے میں نااہل لوگوں کو ملک کے باہرکرنے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

اس کے تحت حکومت کو حاشیے پر رہنے والے لوگوں اور خاص طورپرمسلمانوں کو ‘مشتبہ شہری’ یا ‘درانداز’قراردینے کا حق مل سکتا ہے۔