خبریں

انڈمان انتظامیہ کے پاس ساورکر کی رحم عرضی کا ریکارڈ نہیں: حکومت

انڈمان سیلولرجیل کے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو میں ساورکر کے ذریعےانگریزوں کو لکھی گئی رحم‌ کی عرضی کا کوئی ذکر نہ ہونے کو لےکر راجیہ سبھا میں سوال پوچھا گیا تھا۔

ساورکر،فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر

ساورکر،فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر

نئی دہلی: وزارت سیاحت نے گزشتہ  منگل کو پارلیامنٹ کوبتایا کہ انڈمان انتظامیہ کے پاس ونایک دامودر ساورکر کی رحم عرضی کا ریکارڈ نہیں ہے۔ریاستی وزیر پرہلاد سنگھ پٹیل نے ایک سوال کےتحریری جواب میں راجیہ سبھا کو بتایا کہ انڈمان اور نکوبار انتظامیہ کے آرٹ محکمے کے پاس ساورکر کی رحم عرضی کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔

انڈمان سیلولر جیل کے ‘لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو ‘میں ساورکر کے ذریعےانگریزوں کو لکھی گئی رحم کی عرضی کا کوئی ذکر نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کےتحریری جواب میں پٹیل نے ریکارڈ نہ ہونے کی بات کہی۔انہوں نے بتایا،انڈمان اور نکوبار انتظامیہ سے حاصل اطلاع کے مطابق، سیلولر جیل کے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو میں ایسی رحم کی عرضی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ انڈمان اور نکوبار انتظامیہ کے آرٹ اور تہذیب محکمے کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔

واضح  ہو کہ ناتھو رام گوڈسے نے 1948 میں مہاتما گاندھی کو گولی مار‌کر قتل کر دیاتھا۔ پورے براعظم کو ہلا دینے والے اس قتل کے آٹھ ملزم تھے، جن میں سے ایک نام ساورکر کا بھی تھا۔ حالانکہ، ان کے خلاف یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا اوروہ بری ہو گئے۔1910-11 تک ساورکر انقلابی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ وہ پکڑے گئے اور 1911 میں ان کو انڈمان کی بدنام سیلولر جیل میں ڈال دیاگیا۔ ان کو 50 سالوں کی سزا ہوئی تھی، لیکن سزا شروع ہونے کے کچھ مہینوں میں ہی انہوں نے انگریز حکومت کے سامنے رحم کی عرضی ڈالی کہ ان کو رہا کر دیا جائے۔

اس کے بعد انہوں نے کئی عرضیاں لگائیں ۔ اپنی عرضی میں انہوں نے انگریزوں سے یہ وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا ، اگر مجھے چھوڑ دیا جائے تو میں ہندوستان کی تحریک آزادی سے خود کو الگ کرلوں گا اور برٹش حکومت کے تئیں اپنی وفاداری نبھاؤں گا۔انڈمان جیل سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے یہ وعدہ نبھایا اور کبھی کسی انقلابی سرگرمیوں میں نہ شامل  ہوئے اور نہ پکڑ ےگئے۔

ساورکر نے 1913میں ایک عرضی داخل کی،جس میں انھوں نے اپنے ساتھ ہورہے تمام سلوک کا ذکر کیا اور آخر میں لکھا تھا “حضور میں آپ کو پھر سے یاددلانا چاہتا ہوں کہ آپ رحم دکھاتے ہوئے سزا معافی کی، میری 1911 میں بھیج یگئی عرضی پر نظرِثانی کریں اور اسے حکومتِ ہند کو فارورڈ کرنے کی سفارش کریں۔ہندوستانی سیاست کے تازہ واقعات اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی حکومت کی پالسیوں نےآئینی  راستے کو ایک بار پھر کھول دیا ہے۔ اب ہندوستان اور انسانیت کی بھلائی چاہنےوالا کوئی بھی آدمی، اندھا ہو کر ان کانٹوں سے بھری راہوں پر نہیں چلے گا، جیساکہ 1906-7 کی ناامیدی اور جوش سے بھرے ماحول نے ہمیں سکون اور ترقی کے راستے سےبھٹکا دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کےساتھ)