خبریں

ہندی کے معروف ادیب کرشن بلدیو وید کا انتقال

اپنی تخلیقات میں لسانی رویوں کے لئے مشہور سینئر ادیب کرشن بلدیو وید کا امریکہ کے نیویارک میں جمعرات کو انتقال ہو گیا۔ ہارورڈیونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے وید جدید نثری ادب کے اہم قلمکاروں میں تھے۔

کرشن بلدیو وید(پیدائش : 27 جولائی 1927- وفات : 06 فروری 2020)[فوٹو بہ شکریہ : راج کمل پرکاشن]

کرشن بلدیو وید(پیدائش : 27 جولائی 1927- وفات : 06 فروری 2020)[فوٹو بہ شکریہ : راج کمل پرکاشن]

نئی دہلی : سینئر ادیب کرشن بلدیو وید کا جمعرات کو امریکہ کےنیویارک میں 92 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ ادبی دنیا سے وابستہ ذرائع نے بتایا کہانہوں نےجمعرات کی صبح نیویارک میں آخری سانس لی۔ہندی کے جدید نثری ادب میں اہم ترین قلمکاروں  میں گنے جانے والےکرشن بلدیو وید کا انتقال ہو گیا۔ 27 جولائی، 1927 پنجاب کے دینگا میں پیدا ہوئےوید نے انگریزی سے پوسٹ گریجویشن اور ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور پنی تخلیقات سے کئی نسلوں  کو متاثر کیا۔

کرشن بلدیو وید کی تخلیقات  میں انسان زندگی کے ڈرامائی تناظر کی گہری شناخت ملتی ہے۔ وید کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اپنی تخلیقات میں انہوں نے ہمیشہ نئے لسانی رویوں کے ساتھ تجربے  کیے جو قاری کو ‘ حیران ‘ کرنےکے علاوہ ہندی کے جدیدادب  میں ایک خاص اسلوب کے ایجاد واختراع کی نظر سے بھی اہم ہے۔’اس کا بچپن ‘، ‘ بمل عرف جائیں توجائیں کہاں ‘، ‘تسرین ‘، ‘ دوسرا نہ کوئی ‘، ‘ درد لا دوا ‘، ‘ گزرا ہوا زمانہ ‘،’ کالا کولاژ’، ‘ نر ناری ‘، ‘ مایا لوک ‘، ‘ ایک نوکرانی کی ڈائری ‘ جیسے ناول سے انہوں نے ہندی ادب میں اپنی ایک الگ ہی پہچان بنائی۔

جنوب دہلی کے ‘ بسنت کنج ‘کے باشندہ وید لمبے عرصے سے امریکہ میں اپنی دو شادی شدہ بیٹیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کی مصنفہ بیوی چمپا وید کا کچھ سال پہلے ہی انتقال ہوا تھا۔کرشن بلدیو وید اپنے دو لافانی ناول-‘اس کا بچپن ‘ اور ‘بمل عرف جائیں تو جائیں کہاں ‘ کے لئے مشہور ہوئے ہیں۔

ایک ملاقات میں انہوں نے کہا تھا، ‘ادب میں ڈلنیس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ بھاری بھرکم اور سنجیدگی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ بھیگی-بھیگی تان اور بھینچی-بھینچی سی مسکان پسند کی جاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ ہندی میں اب بھی صناعی  کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا تھا، ‘بمل عرف جائیں تو جائیں کہاں ‘ کو فحش کہہ‌کرخارج کیا گیا۔ مجھ پر غیر ملکی مصنفین کے نقل کا الزام لگایا گیا، لیکن میں ان سب میں نہیں پڑا۔ اب میں 82 کا ہو گیا ہوں اور بطور ادیب میں مانتا ہوں کہ میرا کوئی نقصان نہیں کر سکا۔ جیسا لکھنا چاہتا، ویسا لکھا۔ جیسےتجربے کرنا چاہیے کئے۔’

ان کے انتقال پر ملک کے ادیبوں اور قارئین نے گہرے دکھ ظاہر کیاہے۔

سینئر صحافی اوم تھانوی نے ان کو یاد کرتے ہوئے لکھا، ‘ ہندی ادبی دنیا نے ان کی وہ  عزت نہیں کی جس کے وہ حقدار رہے، بالخصوص بیانیہ میں جرأت مندانہ تجربے  لوگوں کے گلے ہمیشہ نہیں اتر پائے۔ حالانکہ یہ لوگوں کی حد تھی، ویدجی کی نہیں۔ انہوں نےدنیا کا ادب پڑھا تھا۔ دنیا قریب سے دیکھی تھی۔ ان کا تجربہ آفاقی اورجدید تھا۔ دقیانوسی سماج میں ان کی کتنی جگہ بنتی۔ ‘

مصنفہ منیشا کل شریشٹھ نے کرشن بلدیو وید کو خراج عقیدت پیش کرتے  ہوئےکہا، ‘ آج اندر کوئی کنارہ سا جیسے مسمار ہوگیا۔ ان کی پپاری بھری ڈانٹ یاد رہیں‌گی۔ کے بی ہمارے  غم زدہ دل  کے اندھیرے میں ڈوبے ہیں لیکن آپ کے الفاظ میں آج سے اور روشنی بھرگئی…۔ آپ کے قاری بھلے ہم جیسے دیوانے ہی تھے، کیونکہ آپ کو پڑھنا بہت قوت مانگتا رہا۔ …آپ کے قارئین میں آپ کے لئے ایک مضبوط جذبہ تھا۔ جو ہندی میں نایاب ہے۔ آپ ہم سب میں جاوید  ہیں۔

(خبررساں ایجنسی  بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)