خبریں

’جسمانی قد و قامت کی بنیاد پر خواتین کو کمان کے عہدے سے انکار کرنا رجعت پسندانہ قدم‘

مسلح افواج میں خواتین افسروں کو ان کی جسمانی قدوقامت کی بنیاد پر مستقل عہدوں سے محروم رکھنے کا معاملہ۔ ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دینے والی خواتین افسروں نے مرکزی حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ میں دی گئی دلیل کی مخالفت کی ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دینے والی خواتین افسروں نےخواتین کو ان کی جسمانی قدوقامت کی بنیاد پر کمان کاعہدہ دینے سے انکار کرنے کےمرکز کے سپریم کورٹ  میں مذکورہ  رخ کی مخالفت کی ہے اور اس کو نہ صرف رجعت پسندانہ بلکہ پیش کیے گئے ریکارڈ اور اعداد و شمار کے بالکل خلاف قرار دیا ہے۔ ‘خواتین افسروں نے عدالت میں دیےتحریری عرضداشت میں مرکز کے اس رخ کو خارج کرنے کی گزارش  کی ہے۔

خواتین افسروں نے کہا کہ یہ شرمناک  ہے کہ خواتین کو کمان نہ سنبھالنےدینے کو لےکر ایسی بنیاد(مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے دلائل)پیش کی گئی ہیں جو کہ معاملے کے پیش  کردہ ریکارڈ کے بالکل خلاف ہیں۔خواتین افسروں نے کہا کہ وہ 10 کامبیٹ سپورٹ آرمس میں پچھلے27-28 سالوں سےنوکری کر رہی ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری اور جرأت کو ثابت کیا ہے۔

 افسروں نے تحریری رپورٹ میں کہا، ‘ان کو تنظیم کے ذریعے اہل  پایا گیااور انہوں نے 10 کامبیٹ سپورٹ آرمس میں پرامن مقامات کے ساتھ ہی حساس مقامات/مہمات میں فوجیوں اور مردوں کے پلاٹون اور کمپنیوں کی قیادت کی ہے۔ ایسا کوئی موقع سامنےنہیں آیا ہے جب فوجیوں/مردوں نے اپنے مبینہ دیہی پس منظر، مروجہ سماجی معیار کی وجہ سے خواتین کی کمان سے انکار یا اس کو نامنظور کیا ہو۔ ‘

تحریر شدہ رپورٹ کو ریکارڈ میں لیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین افسروں نے ان تمام کرداروں میں بخوبی مظاہرہ کیا ہے  جوان  کو سونپا گیا ہے، اس میں وہ کسی بھی طرح سے کمتر نہیں ہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین افسروں کو ان کے مناسب حقوق سے محروم کرنے کےلئے حکومت ہند کے ذریعے دی گئی مبینہ بنیاد غلط ہے۔ یہ 25 فروری 2019 کے حکومت ہند کے فیصلے کے خلاف ہے، جس کے تحت ایس ایس سی ڈبلیو او (شارٹ سروس کمیشن وومن آفیسرز)کو تمام 10 اکائیوں میں مستقل کمیشن پر اتفاق کیا گیا تھا۔

خواتین افسروں نے دلیل دی کہ 1992 میں خواتین کو پہلی بارہندوستانی فوج میں شامل کئے جانے کے بعد سے کسی بھی ریلیز یا پالیسی کی بنیاد پر لیے گئے فیصلوں میں خواتین افسروں کو صرف اسٹاف تقرریوں  تک ہی محدود رکھنے کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیاگیا ہے۔ لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، خواتین کمانڈ افسروں کی جسمانی کمزوری اورغیر فطری ہونےکے بارے مرکز کی طرف سے پیش کے گئے دلائل کے خلاف دی گئی رپورٹ میں سکوانڈرن لیڈر مینٹی اگروال، دیویی جیت کمار، ہندوستانی فضائیہ کی افسر گنجن سکسینہ جیسی خواتین افسروں کی مثال دی گئی ہے، جن کو گیلینٹری ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔

 اس سے پہلے گزشتہ  پانچ فروری کو سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اورجسٹس اجئے روہتگی کی بنچ نے ہندوستانی فوج سے جڑے اس مدعے پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا اور خواتین افسران اور وزارت دفاع کو اپنی تحریری رپورٹ دینے کو کہاتھا۔ ہندوستانی فضائیہ اور بحریہ سے متعلق معاملوں کی سماعت اگلے ہفتے کی جائے‌گی۔

یہ معاملہ وزارت دفاع کے سکریٹری بنام ببیتا پنیا اور دیگر کا ہے، جو مسلح افواج میں خواتین افسروں کو مستقل عہدوں سے محروم کرنے سے متعلق ہے۔

 (خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)