فکر و نظر

شاہد اعظمی؛ جو آج بھی حق اور انصاف کے لیے جدوجہد کر نے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں…

مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔دراصل ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔

فوٹو : تہلکہ

فوٹو : تہلکہ

سال 2010 کی 11فروری ایک ایسی  ساعت تھی جب رات کے قریب 9 بجے ممبئی سے میرے ایک دوست کا فون آیا کہ کچھ نامعلوم لوگوں نے شاہد اعظمی کو ان کے دفتر میں مار ڈالا۔ یہ  ایک ایسی خبر تھی، جس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں یہ پتہ چل گیا کہ خبر سچ ہے۔ شاہد جب مارے گئے تب وہ محض 32 سال کے تھے۔ ان کا آبائی  وطن اعظم گڑھ تھا لیکن وہ ممبئی کے، دیونار علاقے میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ یہ علاقہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے لیے جانا جاتا ہے۔

ان کے قتل سے صرف ایک ہفتے پہلے ہی میں اعظم گڑھ  گیا تھا۔ وہاں میں نے ہر عمر کے لوگوں کو ان کے بارے میں بہت احترام کے ساتھ بولتے ہوئے پایا تھا اور محسوس کیا کہ لوگ انہیں کافی عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ شاہد کو 1994 میں کچھ سیاسی لیڈران کے  قتل کی‘سازش’کے الزام میں پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کر لیا تھا۔ ان کے خلاف پولیس کے پاس صرف ایک ثبوت تھا ، ان کا وہ قبول نامہ، جسے انہوں نے کبھی دیا ہی نہیں تھا۔اس کے باوجود، پہلے ممبئی کے آرتھر روڈ جیل اور بعد میں دہلی کے تہاڑ جیل میں انہیں پانچ سال سے زیادہ کا وقت گزارنا پڑا۔ تہاڑ جیل میں رہتے ہوئے شاہد نے اپنی پڑھائی مکمل کی۔

سن 2001 میں جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو گھر  لوٹ کر صحافت کے ساتھ ساتھ قانون کی پڑھائی شروع کی۔ تین سال بعد، انہوں نے مشہور وکیل مجید میمن کے ساتھ کام کرنے کے لیے اچھی آمدنی والی سب ایڈیٹر  کی نوکری چھوڑکر، بطور جونیئر 2000 روپے مہینے پر کام شروع کیا۔

 بعد میں، انہوں نے اپنی خود کی پریکٹس شروع کر دی جو آگے چل کر میل کا پتھر ثابت ہوا ۔ بطور وکیل محض 7 سال کی قلیل مدت میں انہوں نے 17 لوگوں کو دہشت گردی جیسے سنگین الزام سے بری کروایا۔ کئی لوگ انہی کی محنت کی وجہ سے بعد میں بھی رہا ہوئے۔ قابل تحسین بات یہ بھی ہے کہ جس وقت شاہد نے دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کے دفاع کا خطرہ مول لیا ، اس وقت بہت کم لوگ اس کے لئے تیار تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی کا خمیازہ انہیں اپنی موت کی شکل میں بھگتنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں:شاہد زندہ ہے…

میں نے شاہد کے بارے میں پہلی بار ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن کے گھر پر ہوئی ایک میٹنگ میں سنا تھا، جہاں ہمیں بتایا گیا تھا کہ مہاراشٹر میں دہشت گردی سے متعلق معاملات  اور ملزمین  کے بارے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ان کے قتل کے بعد،جامعہ ٹیچرس سولڈیرٹی ایسوسی ایشن  کی جانب سے منعقد ایک یادگاری جلسہ میں ایڈووکیٹ بھوشن نے، شاہد کے ساتھ اپنے تعلقات اور کچھ ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا، “شاہد، انصاف کے لیے لڑنے والے ایک  غیرمعمولی اور بہترین وکیل تھے۔

سن2009 میں، شاہد اور میں ایسوسی ایشن فار د پروٹیکشن آف سول رائٹس(APCR) کے مہاراشٹر چیپٹر  کی طرف سے منعقد ایک ورکشاپ میں ریسورس پرسنس کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اے پی سی آر، حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیم ہے، جس سے میں اس وقت وابستہ تھا۔ ورکشاپ میں ایک دن دیر سے پہنچنے کے وجہ سے میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی، جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا۔

لیکن مجھے یاد ہے کہ ورکشاپ کے شرکا ان کی تقریر سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ شاہد کی دوست اور حقوقی انسانی معاملوں کی جان کار، مونیکا سکرانی نے اکانومک اینڈ پولٹیکل ویکلی (EPW) میں شائع ایک مضمون میں شاہد کے بارے میں لکھا ہے، “وہ  چیزوں کو وضاحت کے ساتھ سمجھانے میں ماہر تھے۔ وہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ میں بطور گیسٹ لیکچر پڑھانے بھی آتے تھے۔ اور اپنی ایماندارانہ  پریزینٹیشن ، وسیع علمی ، خوش ہونے کا بچوں جیسا انداز سے اسٹوڈنٹس کا دل جیت لیتے تھے۔ اسٹوڈنٹس شاہد کو جانے نہیں دینا چاہتے تھے، اور ہر سال لوگوں کا خیال ہوتا تھا کہ شاہد ہی نے اب تک سب سے اچھی طرح پڑھایا ہے۔بعد میں، جب میں نے اس ورکشاپ کا ویڈیو دیکھا تو محسوس کیا کہ ان کی باتوں میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی۔

شاہد کمیٹی فاردی پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس (CPDR) اور انڈین ایسوسی ایشن آف پیپلس لائرس (IAPL) کے سرگرم رکن تھے۔ سکرانی کے مطابق، دونوں جگہ ہر کوئی ان کی جانکاری اور تجربہ کی وجہ سے ان کی  عزت کرتے تھے ۔اس کا علم اور تجربہ، اس کی عمر سے کہیں زیادہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اہم معاملوں میں انہیں اپنا وکیل بنانا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بے گناہوں کی رہائی کے لیےجدوجہد ہی شاہد اعظمی کو سچی خراج عقیدت

لیکن وہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہیں کہ،اس کا کام صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ وہ دہشت گردی کے معاملوں ملزمین کا دفاع کرتا تھا، جس کی وجہ سے اسے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ بلکہ اس نے میٹھی ندی کے  ایک پروجیکٹ کی وجہ سے اس کے اطراف میں بسنے والے غریب  لوگوں اور رکشے ٹھیلے والوں کے معاملوں کو بھی محنت کے ساتھ لڑاتھا۔ وہ دہشت گردی اور اس سے متاثر لوگوں سے متعلق موضوع پر پر پی ایچ ڈی بھی کرنا چاہتے تھے۔ اس موضوع پر ممبئی شہر میں ان سے بہتر سمجھ رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو۔اکثر میٹنگ میں وہ اپنی بات نرمی کے ساتھ دھیرے دھیرے مگر مدلل انداز میں رکھے پائے جاتے تھے۔ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی تھی۔اور یہی وجہ ہے کہ ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرنے والی سینئر ریسرچر لیٹا ٹیلر نے مجھے بتایا کہ شاہد سے وہ جب جون 2009 میں ملی تھیں اور شاہد نے اپنے مسلمان کلائنٹس کے ساتھ ہو رہی زیادتی اور ناانصافی کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا۔بقول ٹیلر، جب میں ان کو سن رہی تھی مجھے ان کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہو رہی تھی۔ان کے تشویش کی وجہ ہے بھی تھی کہ ان دنوں جو بھی اس طرح کے مقدمات میں پیروی کرتا تھا ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔کئی ریاستوں میں بار ایسوسی ایشن نے قرارداد منظور کیا تھا کہ ان معاملات میں کوئی وکیل پیروی نہیں کرے گا،اور جنہوں نے بھی ایسا کیا، ان کو نشانہ بنایا گیا ان پر حملے ہوئے۔2009 کے اپریل مہینے میں ایک دوسرے وکیل نوشاد قاسم جی کا منگلور میں قتل کر دیا گیا تھا۔وہ بھی کرناٹک میں ایسے کئی مقدمات لڑ رہے تھے۔

یہ سچ ہے کہ شاہد ہمارے بیچ نہیں ہے اور ان کی بے موت نے انصاف میں دلچسپی رکھنے والے ہم سبھی لوگوں کے لیے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بلکہ اس میں دن  بہ دن  اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے خوشی کی بات یہ کہ پچھلے دس سالوں میں درجنوں نے شاہد کے کام اور  ان کی زند گی سے متاثر ہو کر ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا ہے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔ حق اور انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے وہ مشعل راہ بن کر ابھرے ہیں۔