خبریں

جموں و کشمیر کو سینٹرل جیل میں کیوں نہیں بدل دیتی مرکزی حکومت: یوسف تاریگامی

جموں وکشمیر کے سابق ایم ایل اے اور سینئرسی پی ایم رہنما  یوسف تاریگامی نے ریاست کے بڑے رہنماؤں  کی حراست کو لےکر مرکزی حکومت کو تنقید کا  نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر جموں وکشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو حکومت  وہاں الیکشن کیوں نہیں کراتی۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: سینئر سی پی ایم رہنما اور جموں وکشمیر اسمبلی کے سابق ممبر یوسف تاریگامی نے کشمیر کے سبھی بڑے رہنماؤں  کو جیلوں میں بند رکھنے پر بدھ کو طنز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ریاست کو سینٹرل جیل کے طور پرلسٹڈ کیوں نہیں کر دیتی۔

سی پی ایم جنرل سکریٹری   سیتارام یچوری کے ساتھ تاریگامی نے بدھ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ جموں و کشمیر میں سرکاری جبر کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت پوری ریاست کو سینٹرل جیل میں تبدیل کیوں نہیں کر دیتی ہے، ایسا کرنے سے نہ تو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) لگانا پڑےگا اور نہ ہی دیگر استحصال کرنے والے قوانین کا حکومت کو سہارا لینا پڑےگا۔

انہوں نے جموں وکشمیر میں پچھلے سال اگست میں آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد پیدا حالات کو انسانی بحران قرار دیتے ہوئے کہا، ‘سرکار جموں وکشمیر میں حالات معمول پر ہونے  کے بار بار دعوے کر رہی ہے، اگر ریاست میں حالات معمول پر ہیں تو سرکار وہاں الیکشن کیوں نہیں کراتی ہے۔’

غورطلب ہے کہ گزشتہ دنوں جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔  پچھلے سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا  درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی یہ دونوں رہنما نظربند ہیں۔عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پی ایس اے کے تحت تب معاملہ درج کیا گیا جب انہیں چھ مہینے احتیاطاً حراست میں لیے جانے کی مدت پوری ہو رہی تھی۔

 اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں  پر بھی پی ایس اے لگایا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے سینئر رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے رہنما سرتاج مدنی شامل ہیں۔

یچوری اور تاریگامی نے دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کی جیت یقینی بنانے کے لئے دہلی والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اندھیرے میں اجالے کی راہ دکھانے کے لئے دہلی کی عوام قابل مبارکباد ہے۔اس دوران یچوری نے جموں وکشمیر گئے غیر ملکی رہنماؤں  کے وفد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی قوائد کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ جموں وکشمیر میں پچھلے سال پانچ اگست کے بعد سے اب تک حالات نہیں سدھرے ہیں۔

انہوں نے جموں وکشمیر میں مقامی انتظامیہ  کے ذریعے زمینیں مختص کیے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل  370 کو ہٹائے جانے کا مدعا ابھی سپریم کورٹ  میں زیر غور ہے۔ ایسے میں اس معاملے پر عدالت کا فیصلہ آنے تک سرکار کو زمین مختص کیے جانے  جیسے کاموں سے بچنا چاہیے۔

غورطلب ہے کہ، 72 سالہ تاریگامی جموں و کشمیر اسمبلی کے چاربار کے ایم ایل اے ہیں۔ ان کو 5 اگست سے سرینگر واقع ان کی رہائش گاہ پر بنا کسی رسمی حکم کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ جب سی پی آئی ایم  جنرل سکریٹری یچوری کو سرینگر جانے کی دو کوششوں پر ان کو ہوائی اڈہ سے واپس لوٹنا پڑا تب یچوری نے ہائی کورٹ میں ایک ہیبئس کارپس عرضی دائر کی۔

29 اگست کو یچوری کو تاریگامی کے گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد تاریگامی کی صحت کو لےکر یچوری کی رپورٹ پر سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ان کو دہلی لایا جائے اور ایمس میں ان کا علاج کرایا جائے۔ اس کے بعد 9 ستمبر کو ان کو ایمس میں داخل  کرایا گیا تھا۔

تاریگامی پہلے ایسے کشمیری رہنما ہیں جو حراست میں رکھے جانے کے بعد دہلی آ سکے تھے۔ تب انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے ساتھ کسی بھی مشورے کے بنا آرٹیکل 370 کو ختم کرنا اور ریاست کی تنظیم نو نریندر مودی حکومت کی مایوسی کو دکھاتا ہے۔ ایک اوسط کشمیری جنت  کی مانگ نہیں کرتا ہے، ہم صرف  آپ کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کا موقع مانگ رہے ہیں، ہمیں بھی ساتھ لے لیجیے۔’

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)