خبریں

بھگت سنگھ کو بچانے کی گاندھی نے کوئی کوشش نہیں کی تھی: چیف اکانومک ایڈوائزر

 گجرات یونیورسٹی میں’دی ریولیوشنریز: اے ری ٹیلنگ آف انڈیاز ہسٹری’پرتقریر کرتے ہوئے حکومت ہند کے چیف اکانومک ایڈوائزرسنجیو سانیال نے کہا کہ اگر پہلی عالمی جنگ کے لئے وہ ہندوستانی فوجیوں کو برٹش فوج میں بھیجنے کو تیار تھے تب ان کو اسی طرح کا کام کرنے کو لےکر بھگت سنگھ سے دقت کیوں تھی؟

حکومت ہند کے چیف اکانومک ایڈوائزرسنجیو سانیال(فوٹو : ٹوئٹر /sanjeevsanyal@)

حکومت ہند کے چیف اکانومک ایڈوائزرسنجیو سانیال(فوٹو : ٹوئٹر /sanjeevsanyal@)

نئی دہلی: ملک کی تحریک آزادی کے دوران بھگت سنگھ اور دیگر انقلابیوں کو بچانے کی کوشش نہیں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے حکومت ہند کے چیف اکانومک ایڈوائزرسنجیو سانیال نے بدھ کو کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے اس متبادل تاریخ کو دبانے کےلئے انقلابیوں کی کہانی کو جان بوجھ کر توڑا مروڑا گیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، بدھ کو گجرات یونیورسٹی میں’دی ریولیوشنریز:اے ری ٹیلنگ آف انڈیاز ہسٹری’پر تقریر کرتے ہوئے سانیال نے کہا کہ یہ کہانی ہندوستان کی مستحکم سیاست اور آزادی کے بعد انگریزوں دونوں کے لئے ‘ تکلیف دہ ‘ تھی۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ (انقلابیوں کے)اس نظریہ کو اسکولی نصاب میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

 یونیورسٹی کے طالب علموں اور فیکلٹی سے چیف اکانومک ایڈوائزر نے کہا، یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا مہاتما گاندھی بھگت سنگھ یا کسی دیگر انقلابی کو پھانسی سےبچانے میں کامیاب ہوتے کیونکہ حقائق  موجود نہیں ہیں…انہوں نے اس کی بہت زیادہ کوشش نہیں کی۔

اپنی اس بات کو بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا،  گاندھی تشدد کو لےکر کافی خوش تھے۔ آخرکار انہوں نے ہندوستانی فوجیوں کی برٹش فوج میں بھرتی کی تھی۔ اگرپہلی عالمی جنگ کے لئے وہ ہندوستانی فوجیوں کو برٹش فوج میں بھیجنے کو تیار تھے تب ان کو اسی طرح کا کام کرنے کو لےکر بھگت سنگھ سے دقت کیوں تھی؟ گاندھی جی نے تحریک خلافت کے بعد مالابار بغاوت کے تشدد کو کم کرنے کی کوشش کی، جو ایک طرح سے ایک ایسی تحریک تھی جس کی قیادت خود گاندھی جی نے کی تھی۔ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے،انقلابیوں نے مانا کہ گاندھی جی نے بھگت سنگھ اور دیگر انقلابیوں کو بچانے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر انقلابیوں کو آزادی مل جاتی تو کیا سیاسی سسٹم کا مستقبل فسطائی  ہو جاتا، تب انہوں نے کہا، ایسی کوئی خاص وجہ نہیں تھی کہ ہندوستانی انقلابی ضروری طور پر فسطائی بن جاتے۔ راس بہاری بوس اور شری اربندوجیسے کئی انقلابی بہت اچھے تھے۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ اصل میں ہندوستان کی آزادی کے اس متبادل تاریخ کو دبانے کے لئے انقلابیوں کی کہانی کوجان بوجھ کر توڑا مروڑا گیا تھا۔

انہوں نے آئرش جمہوریت کی مثال دی جو ایک جمہوری‎ریاست تھی جہاں مسلح بغاوت سے آزادی ملی لیکن وہ فسطائی نہیں بنا۔ اس لیے آزادی کے بعد ہندوستان کے اس سمت میں جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا،بدقسمتی سے آزادی سے پہلے ہی زیادہ تر انقلابی مارے جاچکے تھے اور انقلابی تحریک کے صرف دو سینئر رہنما شری اربندو اور ساورکر، بچے اوردونوں تحریک کے اصل بانی تھے۔

سانیال نے کہا،گزشتہ سال پہلی بار یوم جمہوریہ پریڈ کے لئے عظیم شخصیتوں کو مدعو کرکے آئی این اے فوجیوں کو اعزاز سے نوازاگیا تھا۔ آزادی کے 71 سال بعد ایسا ہو ممکن ہو پایا۔ وہیں، جنوری میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کولکاتا میں ایک نئے میوزیم کااعلان کیا جس کو ‘بپلوبی بھارت ‘ کہا گیا، جو انقلابی نقطہ نظرسے جنگ آزادی کے لئے وقف ہے۔

سانیال نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی مزاحمت، عزم اور آخرکارحکمت عملی کی ایک الگ کہانی ہے، جس کو بار بار آزمایا گیا۔ آخرکار انگریزوں کواحساس ہوا کہ وہ ہندوستان پر کنٹرول  نہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں  جب ہندوستان آزاد ہوا۔