خبریں

عمر عبداللہ کی حراست پر سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر انتظامیہ سے مانگا جواب

جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیے جانے کے خلاف ان کی بہن سارہ  عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ  میں عرضی دائر کی ہے۔ پچھلے سال اگست میں ریاست کا خصوصی  درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر نظربند ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حراست کے خلاف داخل عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ  کو نوٹس جاری کیا۔ عمر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکت (پی ایس اے) کے تحت حراست میں لینے کو ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے چیلنج کیا  ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، جسٹس ارون مشرا اور جسٹس اندرا بنرجی کی بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ عمر عبداللہ کی حراست کے جواز کا تجزیہ  کرے گا اور سارہ  عبداللہ پائلٹ کی عرضی  پر جموں وکشمیر انتظامیہ  کو نوٹس جاری کیا ہے۔

سارہ نے کہا، ‘کیونکہ یہ ہیبیس کارپس عرضی تھی تو ہمیں امید تھی کہ ہمیں جلد ہی راحت ملے گی۔ لیکن ہمیں جوڈیشیل سسٹم میں پورا بھروسہ ہے۔ ہم اس لئے یہاں ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ سبھی کشمیریوں کو وہی حق  ملنے چاہیے جو سبھی ہندوستانیوں  کو ہیں اور ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘

اس معاملے کی اگلی شنوائی 2 مارچ کو ہوگی۔ حالانکہ، سارہ عبداللہ کی طرف  سے پیش ہوئے وکیل کپل سبل کی اس گزارش  کو  کورٹ نے ٹھکرا دیا تھا، جس میں انہوں نے اگلے ہفتے ہی اس معاملے کی شنوائی کرنے کی اپیل کی تھی۔

بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے بدھ کو سارہ  عبداللہ پائلٹ کی عرضی پر شنوائی ملتوی  کر دی تھی۔ شنوائی شروع ہوتے ہی تین ججوں کی بنچ میں شامل جسٹس موہن شانتاناگودر نے خود کو اس کی شنوائی سے الگ کر لیا تھا۔

واضح ہو کہ جموں وکشمیر کے سابق  وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پی ایس اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ پچھلے سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا  درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی یہ دونوں رہنما نظربند ہیں۔

عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پی ایس اے کے تحت تب معاملہ درج کیا گیا جب انہیں چھ مہینے احتیاطاً حراست میں لیے جانے کی مدت پوری ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں  پر بھی پی ایس اے لگایا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے سینئر رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے رہنما سرتاج مدنی شامل ہیں۔

 سارہ نے اپنی عرضی میں کہا کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے عدم اتفاق جمہوریت میں ایک شہری کا قانونی حق ہے، خاص طورپر اپوزیشن کے ممبر کا۔انہوں نے کہا کہ عمر کے خلاف الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نہ ہی سوشل میڈیا پوسٹ یا کسی دیگر طریقے سے۔ سپریم کورٹ کے سامنے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا کہ عمر عبداللہ نے ہمیشہ سے ہی لوگوں سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ عمر کو پی ایس اے کے تحت حراست کے حکم کے ساتھ سونپے گئے ڈوزیئر میں جھوٹے اور مضحکہ خیز الزام لگائے گئے ہیں۔