خبریں

شہریت قانون: کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا-مظاہرہ کے دوران دفعہ 144 لگانا غیر قانونی

 19 دسمبر، 2019 کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کرناٹک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف کئی مظاہرے منعقد کئے گئے تھے۔حالانکہ، بنگلور پولیس کمشنر نے ایک دن پہلے سی آر پی سی کی دفعہ 144 کا استعمال کرکے شہر میں عوامی جلسہ پر پابندی لگا دی تھی۔

19 دسمبر 2019 کو بنگلور میں سی اے اے کےخلاف مظاہرہ کے دوران مؤرخ رام چندر گہا کو حراست میں لیتی پولیس(فوٹو :پی ٹی آئی)

19 دسمبر 2019 کو بنگلور میں سی اے اے کےخلاف مظاہرہ کے دوران مؤرخ رام چندر گہا کو حراست میں لیتی پولیس(فوٹو :پی ٹی آئی)

نئی دہلی: حالیہ دنوں میں اپنی طرح کا پہلا فیصلہ سناتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا کہ شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف ہو رہے مظاہرے کوروکنے کے لئے 18 دسمبر کو بنگلور میں دفعہ 144 لگانا غیر قانونی تھا۔بار اینڈ بنچ‌کے مطابق، جج نے کہا، پابندی والا حکم عدالت عظمی کے ذریعےطےشدہ جوڈیشیل جانچ‌کے جائزے پر کھرا نہیں اترتا ہے۔

 19 دسمبر، 2019 کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح کرناٹک میں سی اے اے اور ملک گیر مجوزہ این آر سی کے خلاف کئی مظاہرہ منعقد کئے گئے تھے۔ حالانکہ، بنگلور پولیس کمشنر نے ایک دن پہلےسی آر پی سی کی دفعہ 144 کا استعمال کر کے شہر میں عوامی جلسہ پر پابندی لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو اس فیصلے پر سماعت شروع کی تھی۔ راجیہ سبھا رکن پارلیامان راجیو گوڑا اور کرناٹک کے ایم ایل اے سومیا ریڈی نے سماعت کے دوران نوٹیفکیشن کے خلاف کئی عرضیاں دائر کیں۔ عرضیاں چاہتی تھیں کہ ریاستی حکومت کا حکم منسوخ ہو جائے۔

 19 سے 21 دسمبر تک نافذاحکام کے جواز کی تفتیش کرنے کی بات کہتے ہوئے ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو کہا تھا کہ ‘ کیاآپ تمام مظاہرے پر پابندی لگائیں‌گے۔ آپ ضابطے پر عمل کرتے ہوئے پہلے دی گئی اجازت کو کیسے منسوخ کر سکتے ہیں۔لائیو لا کے مطابق، ججوں نے کہا، ‘ ہم مخالفت کے موضوع سے فکرمند نہیں ہیں،ہماری فکر فیصلہ لینے کے عمل کے بارے میں ہے جو بلاشبہ بنیادی حقوق کو کم کرتا ہے۔یہ اصل میں ایک روکنے والی تدبیر ہے۔ روکنے والی تدبیر سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی  ہے۔ پہلی نظر میں، حکم میں یہ نہیں دکھتا ہے کہ اس فیصلے پر کیسےپہنچا گیا۔ اس لئے ان عرضیوں کو شروعاتی سطح پر سماعت کے لئے لیا گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کیا دفعہ 144 کے تحت حکم منظور کرکے اجازت کو منسوخ کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی سابقہ-فیصلے کی سماعت کئے بنا۔

عدالت نے ریاست کی نمائندگی کر رہے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ اس فیصلے کےبارے میں کئی سوالات ہیں، جن میں مخالفت کی اجازت کیوں دی گئی اور پھر راتوں رات ہٹا دیا گیا اور کیا اسٹیٹ مان سکتی ہیں کہ تمام مظاہرےعوامی امن کے لئے خطرہ ہیں۔پورے ملک کی پولیس پر اپنی سہولت سے دفعہ 144 کا غلط استعمال کرنے کاالزام لگا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر دھیان دیا تھا اور 2011 میں کہا تھا، ‘ ایک عوامی جلسہ /مظاہرہ  کے لئے انکار اور / یا اجازت واپس لینا جائز اور غیر معمولی وجہوں کے لئے ہونا چاہیے۔ دفعہ 144 سی آر پی سی کے دائرے میں ایک آئینی حق پر پابندی کی وجہ بنتی ہے، اس کو بہت احتیاط سے استعمال کیا جاناچاہیے۔

واضح ہو کہ کرناٹک کے بنگلور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف گزشتہ سال 19 دسمبر کومظاہرے ہوئے تھے۔ اس دوران کچھ جگہوں پر تشددبھی ہوا اور ان مظاہرے میں تین لوگوں کی موت ہو گئی۔ ان میں سے دو کی ساحلی کرناٹک کے بنگلور میں جبکہ ایک کی اتر پردیش کے لکھنؤ میں موت ہوئی۔شہریت ترمیم قانون کی مخالفت میں مظاہرہ کرنے کی وجہ سے بنگلورو پولیس نےمشہور مؤرخ رام چندر گہا کو بھی حراست میں لے لیا تھا، حالانکہ بعد میں ان کو رہاکر دیا گیا۔

 اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہندوستان آئے ہندو،سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔ شہریت ترمیم قانون میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سےباہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح تعصب آمیز ہونے کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کوہندوستان کے سیکولر تانے-بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہاہے۔ ابھی تک کسی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیاگیا تھا۔