خبریں

ڈاکٹر کفیل معاملے پر اویسی نے کہا-ایک ڈاکٹر نہیں، ’ٹھوک دیں گے‘ جیسا بیان دینے والے ہیں نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ

 اتر پردیش کے علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی میں شہریت قانون (سی اےاے) کےخلاف  بیان  دینے کے الزام  میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا ہے۔

اسد الدین اویسی، فوٹو : پی ٹی آئی

اسد الدین اویسی، فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: ا آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین(اے آئی ایم آئی ایم)کے صدر اسدالدین اویسی نے ڈاکٹر کفیل پر این ایس اے لگائے جانے کو لے کر یوپی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ  نیشنل سکیورٹی کے لیے ایک ڈاکٹر نہیں بلکہ ‘ٹھوک دیں گے’ جیسا بیان دینے والے دراصل  نیشنل سکیورٹی  کے لیے خطرہ ہیں۔

 اویسی نے ٹوئٹ کرکہا، ‘اتر پردیش میں دلتوں، مسلمانوں اور مخالفین کے خلاف یوگی حکومت  مسلسل نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) کا استعمال کر رہی ہے۔ قومی سلامتی کے لیے ایک ڈاکٹر خطرہ  نہیں ہے۔ ایک وزیراعلیٰ جو ‘ٹھوک دیں گے’ اور ‘بولی نہیں تو گولی’ جیسے بیان دیتا ہے، وہ واضح طور پر قومی سلامتی کے لیے خطرہ  ہے۔’

بتا دیں کہ اتر پردیش کے علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)میں شہریت قانون (سی اےاے) کےخلاف  بیان  دینے کے الزام  میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا ہے۔ڈاکٹر کفیل خان کو 29 جنوری کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ متھرا جیل میں بند خان کو ضمانت مل گئی تھی۔لیکن اب ان  کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور وہ جیل میں ہی رہیں گے۔

علی گڑھ  کے ایس ایس پی آکاش کلہری نے بتایا تھا،‘ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور وہ جیل میں ہی رہیں گے۔’

غور طلب ہے کہ اپنی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر کفیل خان نے ممبئی میں عدالت میں اس خدشے کا اظہارکیا تھا کہ اتر پردیش پولیس کے ذریعے‘‘انکاؤنٹر’’ میں انہیں مارا جا سکتا ہے۔اس دوران خان کے وکیل نے کہاتھا کہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں تین دن کی ٹرانزٹ ریمانڈ پر بھیج دیا۔ ان کے وکیل کے مطابق، خان نے عدالت میں دعویٰ کیا تھاکہ یوپی پولیس نے انہیں معاملے میں‘‘غلط طریقے سے’’ پھنسایا ہے۔ وکیل کے مطابق، خان نے عدالت کو بتایاتھا، ‘‘اس بات کا خدشہ ہے کہ انہیں اگر ٹرانزٹ (ریمانڈ) پر بھیجا جاتا ہے تو انکاؤنٹر میں ان کا قتل  کر دیا جائےگا’’ اور زور دیا کہ انہیں ممبئی میں ہی رکھا جائے۔ عدالت کے باہر خان کے وکیل نے صحافیوں کو بتایا کہ خان کو انکاؤنٹرکا ڈر ہے ‘‘کیونکہ ان کے پاس پوری جانکاری ہے کہ بچوں کی موت (اتر پردیش کے ایک میڈیکل کالج میں) کا ذمہ دار کون ہے۔’’

ڈاکٹر کفیل کے بھائی عادل احمد خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی طرف سے دس فروری کو جاری رہائی کے حکم کی کاپی فراہم  کراتے ہوئے ان کی ضمانت کی جانکاری دی۔کفیل خان کے وکیل نے کورٹ میں ان کی ضمانت کی عرضی ڈالی تھی، جس پر 10 فروری کو سی جی ایم کورٹ نے ڈاکٹر کفیل کو ضمانت دے دی تھی۔ عدالت نے 60 ہزار روپے کے دو بانڈ کے ساتھ مشروط ضمانت دی تھی۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ مستقبل  میں اس طرح کے کسی واقعے  کو نہیں دوہرائیں گے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان پراین ایس اے اس لیے لگایا گیا کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  میں شہریت  قانون کے خلاف مظاہرہ جاری ہے اور علی گڑھ جیل میں کفیل خان کے  ہونے سے شہر میں نظم ونسق  کی صورت حال اور خراب ہو سکتی ہے۔بتا دیں کہ پچھلے مہینے 29 جنوری کو اتر پردیش کے ایس ٹی ایف نے شہریت  قانون (سی اےاے) کے خلاف علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)میں دسمبر میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز خطاب  دینے کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ  سی اےا ے مخالف  ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔

ممبئی پولیس کے ایک افسر نے کہا تھا، ‘اتر پردیش ایس ٹی ایف کے حکام  نے ڈاکٹر کفیل خان کوآئی پی سی  کی دفعہ 153 اے (کمیونٹی کے درمیان عداوت  کو بڑھاوا دینے)کے اہتماموں  کے تحت سول لائن میں درج معاملے میں گرفتار کیا۔ ہماری پولیس ٹیم نے اتر پردیش پولیس کی گزارش  پر ان  کی مدد کی۔’انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ خان نے پچھلے سال 12 دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے باہر باب سید پرمظاہرہ کے دوران 600 سے زیادہ طلبا کے سامنے مبینہ طورپر اشتعال انگیز بیان دیے تھے۔

ڈاکٹرخان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب بی آرڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں 60 سے زیادہ بچوں کی موت ایک ہفتےکے اندر ہو گئی تھی۔ڈاکٹرخان کو 2017 میں گورکھپور کے بابا راگھو داس میڈیکل کالج سے برخاست کر دیا گیا تھا کیونکہ انسفلائٹس سے متاثر کئی بچوں کی موت  ہو گئی تھی۔ ان کو  انسفلائٹس وارڈ میں اپنی ذمہ داریوں کی مبینہ خلاف ورزی  کے لیے اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے لیے بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ، پچھلے سال انہیں عدالت نے سبھی الزاموں  سے بری کر دیا تھا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)