خبریں

جامعہ طلبا کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکز، دہلی حکومت اور پولیس سے جواب مانگا

دہلی پولیس کی کارروائی کے دوران جامعہ کی لائبریری میں پڑھ رہے طالب علم شایان مجیب نے پولیس پر ان کی دونوں ٹانگیں توڑنے کا الزام لگاتے ہوئے دو کروڑ روپے  معاوضے کی مانگ کی ہے۔ عرضی میں انہوں نے کہا ہے کہ تشدد میں زخمی ہونے کے بعد سے علاج میں وہ اب تک دو لاکھ روپے سے زیادہ خرچ‌کر چکے ہیں۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیم  قانون کو لےکر ہوئے تشدد میں زخمی ایک طالب علم کے ذریعے دو کروڑ روپے کے معاوضے کی مانگ کرنے والی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے سوموار کو مرکز، دہلی حکومت اور پولیس سے جواب مانگا ہے۔ چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر کی بنچ نے طالب علم کی عرضی پر مرکز، دہلی حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔

عرضی میں طالب علم نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے اس کی دونوں ٹانگیں توڑ دی۔ اس کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارروائی کے وقت وہ یونیورسٹی کی لائبریری میں پڑھ رہا تھا۔ شایان مجیب نے وکیل نبیلہ حسن کے ذریعے یہ عرضی دائر کروائی ہے۔ اس میں اس نے کہا ہے کہ تشدد میں زخمی ہونے کے بعد سے علاج میں وہ اب تک دو لاکھ روپے سے زیادہ خرچ‌کر چکا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، طالب علم شایان مجیب نے دو کروڑ روپے کے معاوضے کی مانگ کی ہے۔ اس سے پہلے ایک دیگر طالب علم محمد منہاج الدین نے عرضی دائر کر کےواقعہ کی تفتیش کروانے اور واقعہ میں زخمی ہونے کے بعد علاج میں آئے خرچ‌کے عوض میں معاوضے کی مانگ کی تھی۔ منہاج الدین نے عرضی میں کہا کہ واقعہ میں اس کی ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی۔

بہار کے سمستی پور کے رہنے والے ایل ایل ایم کے فائنل ایئر کے طالب علم منہاج الدین (26) کا کہنا تھا کہ وہ لائبریری کے ابن سینا (جامعہ کی پرانی لائبریری) میں بیٹھ‌کر پڑھائی کر رہے تھے کہ تبھی 20 سے 25 پولیس اہلکار اندر گھسے اور طالب علموں پر لاٹھیاں برسانی شروع کر دی۔

غور طلب ہے کہ 13 دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کے بعد 15 دسمبر جامعہ کیمپس میں تشدد ہوا تھاجہاں پولیس نے طلبا پر بے رحمی سے لاٹھی چارج کیا تھا اور ان پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے تھے۔ پولیس کی کارروائی میں درخواست گزاروں سمیت کئی طالب علم زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں 50 طلبا کو حراست میں لیا گیا  تھا اور 100 کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔ چشم دیدوں اور اسٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ پولیس کے ذریعے ان کو بے رحمی سے مارا گیا،لیکن پولیس کے ذریعے ان سبھی سے انکار کیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اس تشدد کے بعد پولیس کے ذریعے لگاتار یہ کہا گیا تھا کہ وہ لائبریری میں نہیں گئے تھے۔ پولیس پر اس کارروائی کے دوران فائرنگ کرنے کا بھی الزام لگا تھا۔ دہلی پولیس کی انٹرنل جانچ میں کہا گیا تھا کہ دو پولیس اہلکاروں نے اےسی پی رینک کے ایک آفیسر کے سامنے طالب علموں پر گولیاں چلائی تھیں۔ وہیں، پیپلس یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس (پی یو ڈی آر)کی ایک ٹیم نے بھی ‘بلڈی سنڈے ‘ نام کی ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے جامعہ کے طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے ارادے سے حملہ کیا تھا۔

 رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پولیس نے جان بوجھ کر لوگوں کو حراست میں رکھا اور زخمیوں تک طبی مدد نہیں پہنچنے دی۔ پولیس بنا اجازت کے کیمپس پہنچی اورلاٹھی سے طالب علموں کو پیٹنا شروع کیا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے اور طالبعلموں پر لاٹھی چارج کرنا شروع کیا۔ ساتھ ہی پولیس نے طالب علموں پر فرقہ وارانہ تبصرہ بھی کیا۔

 رپورٹ کے مطابق، پولیس نے طالب علموں پر وحشیانہ کاروائی کے دوران ان کےلئے جہادی، غداراور کٹوا جیسے الفاظ کا استعمال کیا، ساتھ ہی مبینہ طور پرخواتین کو جنسی تشدد کی بھی دھمکیاں دیں۔

وہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں 15 دسمبر 2019 کو ہوئے تشدد کے بارے میں طالب علموں کے ایک گروپ نے دہلی  پولیس کی  کارروائی کو لےکر اتوار کو ایک ویڈیو جاری کیا، جس میں پولیس کے جوان لائبریری میں بیٹھ‌کر پڑھ رہے طالب علموں پر بےرحمی سے لاٹھیاں برساتے نظر آ رہے ہیں۔ جامعہ کوآرڈینشن کمیٹی (جے سی سی) کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری 44 سیکنڈ کا یہ ویڈیو ایک سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کا حصہ ہے، جس پر 15 دسمبر کی تاریخ اور شام کے چھے بجے کا وقت درج دکھتا ہے۔

جے سی سی کے مطابق، یہ سی سی ٹی وی فوٹیج لائبریری کی پہلی منزل پر بنے اولڈ ریڈنگ ہال کی ہے، جہاں ایم اے اور ایم فل کا سیکشن ہے۔ ویڈیو میں کچھ طالب علم یہاں بیٹھ‌کر پڑھتے دکھ رہے ہیں، جب پولیس اہلکار آتے ہیں اور ان کو لاٹھیوں سے مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویڈیو میں کچھ پولیس اہلکاروں اور طالب علموں کے چہرے ڈھکے ہوئے بھی دکھتے ہیں۔ حالانکہ، دی وائر آزادانہ طورپر اس ویڈیو کی سچائی کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔

وہیں، پہلے لائبریری میں گھسنے سے انکار کرنے والی دہلی پولیس نے اتوار کو کہا کہ وہ ویڈیو کی ‘ سچائی کی تصدیق ‘ کرنے میں لگی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ویڈیو ‘ ایڈیٹڈ ‘ ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)