خبریں

مدھیہ پردیش: سی اے اے-این آر سی کے خلاف آئے آدیواسی بو لے، حکومت کے کاغذات کے مکڑ جال میں نہیں پھنسیں‌ گے

گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے بیتول میں شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت میں جمع ہوئے آدیواسیوں نے کہا کہ جس جنگل میں ان کے آباواجداد فن ہیں، وہ اس جگہ پر اپنے حق کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت دے سکتے ہیں۔

(تمام فوٹو : انوراگ مودی)

(تمام فوٹو : انوراگ مودی)

شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)، این پی آراور این آر سی کو لےکر پورے ملک میں کئی طرح کے احتجاج اورمظاہرہ ہو رہے ہیں۔مدھیہ پردیش کے ہردا، بیتول، کھنڈوا اور ہوشنگ آباد ضلع کےآدیواسیوں کا ماننا ہے کہ اس کو لےکر حکومت چاہے جو کہے اور اس پر چاہے جو سیاست ہو، لیکن ان کی نظر میں یہ’ کاغذات کے برہمنواد ‘ کی طرف اگلا بڑا قدم ہے اوروہ اس کو پوری طرح سے نامنظور کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے حکومت ان سے ان کے آباواجداد کے جنگل میں حق ثابت کرنے کے لئے کاغذ مانگتی ہے، پھر اسکول میں نامزدگی سے لےکر راشن اور علاج کےلئے آدھار کارڈ اور اب شہریت کا ثبوت۔ وہ حکومت کو کاغذ بتاتے-بتاتے اپنا جنگل،پہاڑ، ندی، تہذیب سب کچھ کھو چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اب وہ حکومت کے ذریعے کھڑے کئے گئے کاغذ کے اس مکڑجال میں اب اور نہیں پھنسیں‌گے اور اپنے طریقے سے اس کی مخالفت کریں گے۔ ایک مہم کے تحت وہ جنگل میں آدیواسیوں کے الگ الگ تیرتھ استھل اور راجاؤں کے جو قلعے ہیں،وہاں جاکر اپنے آباواجداد کو یاد کریں‌گے۔

اسی کے تحت گزشتہ دنوں شدید سردی  میں بھی ان اضلاع کے 15گاؤں کے 100 قبائلی نمائندے بیتول ضلع میں پہاڑ پر بنے قبائلی راجا کے قلعے اورآدیواسیوں کے تیرتھ استھل سانولی گڑھ پر جڑے۔شرمک آدیواسی سنگٹھن اورسماجوادی جن پریشد کے زیر اہتمام رات بھر کی لمبی بات چیت  کے بعد آدیواسیوں نے یہ طے کیا کہ جنگل میں بسے سانولی گڑھ جیسے تیرتھ استھل اور ان کے راجاؤں کے قلعے ہی جنگل پر ان کے حق اور ان کے یہاں کے اصل شہری ہونے کا اصلی ثبوت ہے۔ وہ نہ تو جنگل-زمین پر اپنے حق کو لےکر اور نہ ہی اپنی شہریت کو لےکر حکومت کو کوئی بھی کاغذی ثبوت دکھائیں‌گے۔

وہ حکومت سے اپیل کریں‌گے کہ وہ جنگل میں ان کے دیو استھلوں اورمکھیاؤں کے قلعے پر آکر زندہ ثبوت دیکھے۔آدیواسیوں نے نعرہ دیا، پرکھوں  سےناطہ جوڑیں‌گے-جنگل-زمین نہیں چھوڑیں‌گے۔ پرکھوں سے ناطہ جوڑیں‌گے-کاغذ کا مکڑجال توڑیں‌گے۔اس کے بعد انہوں نے اپنے آباواجداد کو یاد کیا اور روایتی قبائلی پرچم چڑھاکر وہاں دیو استھلوں پر پوجا-پاٹھ کی اور یہ اعلان کیا کہ جنگل میں بسےان کے دیو اور ان کے راجاؤں کے مقامات ہی جنگل، جس حکومت کو ثبوت چاہیے وہ یہاں ان کے دیو استھلوں اور راجاؤں کے قلعے پر آکر ان سے بات کرے۔

ہردا ضلع کے ربانگ گاؤں کے سابق ضلع ممبر رام دین نے کہا کہ جس جنگل میں ان کے آباواجداد دفن ہیں، وہ اپنے حق کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت دے!بیتول ضلع کے مالی کھیڑا گاؤں کے باشندہ اور سابق سرپنچ رمیش نےبتایا کہ سانولی گڑھ کا قلعہ اور وہاں ان کے دیومندر اس بات کا ثبوت ہے کہ قبائلی انگریزوں اور آزاد ہندوستان کی حکومت کے پہلے سے یہاں ہے۔ہوشنگ آباد ضلع کے ضلع ممبر پھاگرام نے کہا کہ کاغذ حکومت بناتی ہےلوگ نہیں۔ اب، جب حکومت نے ہی لوگوں کے کاغذ نہیں بنائے، تو وہ دکھائیں‌گے کہاں سے؟ حکومت ایک طرف آدیواسیوں کو ان کے جنگل، زمین اور تہذیب سے الگ کر رہی ہے اوردوسری طرف ان سے روز روز کاغذی ثبوت مانگ‌کر ان کو کاغذات کے جال میں پھنسا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جس گونڈوانا میں کبھی آدیواسی کا راج  تھا، آج وہاں کبھی جنگل پر حق اور اب شہریت کا حق مانگا جا رہا ہے۔

سانولی گڑھ میں پوجا-پاٹھ کرتے آدیواسی۔

سانولی گڑھ میں پوجا-پاٹھ کرتے آدیواسی۔

آدیواسیوں نے اس پروگرام کے لئے سانولی گڑھ کا قلعہ اس لئے چناکیونکہ انگریزوں کے آنے تک یہاں قبائلی راجا کی حکومت تھی اور یہ اس علاقے کےآدیواسیوں کا تیرتھ استھل ہے۔غور کرنے والی بات ہے کہ دنیا بھر میں قبائلی کبھی بھی زمین کی ملکیت کو نہیں مانتے ہیں۔ ان کے ملکوں میں آئے گوروں کو سب سے بڑا مسئلہ ان کوزمین کی ملکیت سمجھانے میں آیا۔قبائلی مانتے ہیں کہ اس کاغذی ثبوت کے جال کے نام پر ہی انگریزوں سے لےکر آج تک ان کو جنگل اور زمین سے دور کیا گیا اور اب آزاد ہندوستان کی حکومت ان سے ایک قدم آگے جاکر ان کو شہریت سے بھی محروم کرنا چاہتی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا قبائلی علاقوں میں آج بھی بہت ایسے گاؤں ہیں جو حکومت کے ریکارڈ میں درج ہی نہیں ہیں۔ مثال کے لئے بیتول ضلع میں گھوڑاڈونگری تحصیل میں 70 کی دہائی میں بنگلہ دیش سے آئے پناہ گزینوں کو بسانے کے لئے 36 کیمپ بنائے گئے، جو آج گاؤں بن گیا ہے۔اس کے لئے جو زمین جنگل محکمہ نے بازآبادکاری محکمہ کو دی تھی، اس میں کچھ ہزار ایکڑ زمین پر کوئی کیمپ نہیں بسائے گئے۔ بعدمیں (80 کی دہائی میں)یہاں بیتول ضلع کی سرحد سے لگے چھندواڑا ضلع کے زمین سے محروم قبائلی بس گئے۔ انکے مرکاڈھانا، منکاڈھانا، رینی پاٹی سمیت تقریباً ایک درجن گاؤں ہیں، جو حکومت کےریکارڈ میں درج نہیں ہیں۔

محکمہ محصول کہتا ہے کہ یہ ہمارا گاؤں نہیں ہے اور جنگل محکمہ کہتاہے، ان کا گاؤں نہیں ہے۔ (قبائلی علاقوں میں محصولات کی زمین پر بسے گاؤں محصولات کے گاؤں اور جنگلات کی زمین پر بسے گاؤں کو جنگل گرام کہلاتا ہے) ان گاؤوں کے لوگوں کو دوسرے ضلع کے بتاکر (گھس پیٹھئے) یہاں کچھ چھوٹی-موٹی سہولت دی ہے اوررائےدہندگان فہرست میں ان کے نام بھی ہیں۔ لیکن گاؤں کے کسی بھی آدمی کے پاس زمین کا پٹہ نہیں ہے۔

اتناہی نہیں، اس کے بعد 2001 میں بسے بھنڈارپانی گاؤں کے لوگوں کےنام ایک ترقی پسند الیکشن آفیسر کی وجہ سے 2014 میں رائےدہندگان فہرست میں جڑے اوردوسرے گاؤں دانواکھیڑا کے اسی طرح کے ایک اور آفیسر کی وجہ سے2018 میں رائےدہندگان فہرست میں جڑے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ دیگر کاغذات نہیں ہیں۔بیتول ضلع میں آج بھی کئی ویران گاؤں ریکارڈ میں درج ہے (ویران مطلب بیماری سے یا دیگر وجہوں سے وہاں کی پوری آبادی گاؤں چھوڑ‌کر چلی گئی۔ )آدیواسی علاقے میں آج بھی آس پاس کے علاقے میں ہجرت جاری ہے۔ ہمیں بستر میں نکسلی کے نام پر چلے سلوا جڈوم میں سینکڑوں گاؤں خالی کروانے کا واقعہ بھی نہیں بھولناچاہیے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ نے جنگل کی زمین پر اپنا حق ثابت نہ کر پانےوالے ملک بھر‌کے 20 لاکھ لوگوں (اصل میں فیملی) کو قابض بتاکر جنگل کی زمین سے بےدخل کرنے کے حکم دئے تھے، اس میں سے بھی آدھے سے زیادہ قبائلی تھے۔سمجھنے والی بات ہے کہ جو آدیواسی اپنے سال 2005 سے پہلے سے جنگل میں قابض ہونے کا ثبوت نہیں دے پایا، وہ اپنی شہریت کا ثبوت کہاں سے دے‌گا!

قبائلی علاقے میں پیدائش اور موت کے رجسٹریشن  کی حالت یہ ہے کہ اب سے تقریباً 18 سال پہلے جب یہ مضمون نگار ایک کارکن کے طور پر بیتول ضلع کے شاہپور تحصیل میں کاسٹ سرٹیفیکٹس کے لئے آدیواسیوں کے فارم بھر رہا تھا، تو ایک ہی ماں باپ کے دو بیٹوں کے اسکول سے دئے گئے سرٹیفیکٹ میں ان کی عمر کا فرق محض 6 مہینے کاتھا۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسکول میں داخلہ لینے پر وہاں ماسٹر اپنےمن سے ان کی پیدائش کی تاریخ اور سال درج کر لیتا ہے کیونکہ سرپرست کے پاس تو کوئی کاغذ ہوتا نہیں ہے۔

حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ آدیواسی، دلت، مسلم، پچھڑوں، غریبوں کےپاس کوئی کاغذ نہیں ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، ان محنت کش لوگوں کی طرز زندگی میں کاغذ جمع کرنے کا وقت اور سوچ نہیں ہے۔ یہ ان کی تہذیب کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کاغذ صحیح طریقے سے رکھنے کی جگہ۔ملک کے شہریوں اور خاص طورپر کمزور طبقے کے لوگوں کے لئے بنا کسی جانبداری اور جھگڑا کھڑے کئے بنیادی سہولت کسی بھی جمہوریحکومت کی بنیادی جوابدہی ہے، وہ اس پر دھیان دے۔

(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔ )