فکر و نظر

شاہین باغ اور جامعہ سے متعلق امت شاہ اور فسطائی ہینڈلز کے دعووں کا سچ

فیک نیوز راؤنڈ اپ: ٹائمز ناؤ سمٹ کے ایک سیشن میں مدیر نویکا کمار نے وزیر داخلہ امت شاہ سے بات چیت  کی ۔ نویکا نے اپنے سوال میں بی جے پی کے ایک امیدوار کے اس جملے کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے  کہا تھا کہ یہ شاہین باغ والے ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر ان کی خواتین کا ریپ کریں گے۔ امت شاہ نے جواب دیا، ’ایسا بیان نہیں دیا کسی نے… کہ بہو بیٹیوں کا ریپ کریں گے…مگر باقی سب جو اپنے کہا… وہ بھی بیان نہیں دینے چاہیے تھے‘۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

گزشتہ 11 فروری کو دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج  منظر عام پر آئے۔ عام آدمی پارٹی کو پچھلی دفعہ کے مقابلے 5 سیٹیں کم حاصل ہوئیں۔ لیکن تقریباً 62 سیٹوں پر شاندار فتح حاصل کر کے اروند کیجریوال نے گزشتہ ہفتے  وزیر اعلیٰ کا حلف لیا۔ کیجریوال 16 فروری کو تیسری مرتبہ دہلی کے چیف منسٹر بنے۔

اسمبلی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لئے کیجریوال کی راہ پہلے ہی آسان نہ تھی اور بی جے پی کی آئی ٹی سیل نے اُن کی دشواریوں میں مزید اضافہ ہی کیا۔ بی جے پی کی آئی ٹی سیل نے نہ صرف عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران فیک نیوز کی اشاعت کی بلکہ انتخابات کے نتائج  عام ہو جانے کے بعد بھی عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ گزشتہ ہفتوں میں ایسا ہی معاملہ امانت اللہ خان کے ساتھ پیش آیا۔

امانت اللہ خان دہلی کے اوکھلا علاقے سے منتخب ہوئے ہیں۔ دہلی انتخابات سے قبل بھی ان کے خلاف فیک نیوز عام کی گئی تھی اور انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد ان کو بی جے پی کی آئی ٹی سیل نے نہیں بخشا۔ سوشل میڈیا میں امانت الله خان کو منسوب کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ وائرل کیا گیا جس میں لکھا گیا تھا؛

13 راؤنڈ پورے ہونے کے بعد 72000 ووٹوں سے آگے چل رہا ہوں۔ آج شاہین باغ جیتا، آج ہمارا اسلام جیتا ہے۔ انشاء الله جلد ہی پورے انڈیا میں اسلام کی جیت ہوگی۔ میرے سبھی مسلم بھائی بہنوں کا شکریہ۔ سب نے مل کر اپنی طاقت دکھائی۔ ایکتا بنائے رکھنا، ہم تاریخ ضررو دُوہرآئیں گے۔

fake 1

 آلٹ نیوزنے انکشاف کیا کہ امانت الله خان کے نام سے منسوب کیا گیا ٹوئٹ جعلی تھا اور اس کو فوٹو شاپ سے کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ غور طلب ہے کہ امانت الله خان نے 11 فروری کوایک ٹوئٹ ضرور کیا تھا لیکن وہ ٹوئٹ صرف ایک جملے پر مشتمل تھا جس میں انہوں نے صرف یہ لکھا تھا کہ وہ 13 راؤنڈ کے بعد 72000 ووٹوں سے آگے چل رہے ہیں۔

ان کے اس ٹوئٹ میں فوٹو شاپ سے اضافہ کر دیا گیا اور ٹوئٹ کی عبارت میں فرقہ وارانہ جملے جوڑ  دیے گئے۔ سوشل میڈیا میں وائرل اس فرضی ٹوئٹ کی شناخت اس بات سے ہو جاتی ہے کہ اس میں کچھ الفاظ کا تلفظ غلط تھا۔ مثال کے طور پر ’انشاء الله‘  کو’ انساء الله‘ لکھا گیا تھا، اور ’شکریہ‘ کو ’سکریہ‘ لکھا گیا تھا۔ آلٹ نے مزید واضح کیا کہ اس فرضی ٹوئٹ میں اضافی عبارت کا فونٹ اصل عبارت کے فونٹ سے مختلف تھا اور یہ کہ دونوں عبارتوں کے الائن منٹ یکساں نہیں تھے جو اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ یہ وائرل ٹوئٹ جھوٹا تھا۔ ایک فیس بک یوزر نے اس ٹوئٹ کی اس طرح مذمت کی:

گزشتہ ہفتے ٹائمز ناؤ سمٹ کا انعقاد کیا گیا اور اس سمٹ کے ایک سیشن میں ٹائمز ناؤ کی مدیر نویکا کمار نے وزیر داخلہ امت شاہ سے بات کی۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے نویکا نے امت شاہ سے دہلی انتخابات کے بی جے پی امیدواروں کے بیانات کے تعلق سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے جملے یا نعرے بی جے پی کے امیدواروں کو استعمال نہیں کرنا چاہیے تھے۔ نویکا نے اپنے سوال میں بی جے پی کے ایک امیدوار کے اس جملے کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے انتخابات سے پہلے کہا تھا کہ یہ شاہین باغ والے ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر ان کی خواتین کا ریپ کریں گے۔ نویکا کے سوال  مکمل کرنے سے پہلے ہی امت شاہ نے جواب دیا:

ایسا بیان نہیں دیا کسی نے… کہ بہو بیٹیوں کا ریپ کریں گے… مگر باقی سب جو آپ نے کہا… وہ بھی بیان نہیں دینا چاہیے تھے۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ امت شاہ کا دعویٰ جھوٹا تھا۔ بی جے پی کےایم پی  پرویش ورما  نے اس طرح کے بیانات دیے ہیں جس میں انہوں نے ہندوؤں سے ریپ والی بات کہی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں پرویش ورما نے اے این آئی سے کہا؛

اروند کیجریوال بھی یہ کہتے ہیں کہ میں شاہین باغ کے ساتھ ہوں، اور دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا بھی کہتے ہیں کہ میں شاہین باغ کے ساتھ ہوں۔ دہلی کی جنتا جانتی ہے کہ جو آگ آج سے کچھ سال پہلے کشمیر میں لگی تھی، وہاں پہ جو کشمیری پنڈت ہیں ان کی بہن بیٹیوں کے ساتھ ریپ ہوا تھا، اس کے بعد وہ آگ یو پی میں لگتی رہی، حیدرآباد میں لگتی رہی، کیرالہ میں لگتی رہی، آج وہ آگ دہلی کے ایک کونے میں لگ گئی ہے، وہاں لاکھوں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں، وہ آگ کبھی بھی دہلی کے گھروں تک پہنچ سکتی ہے ہمارے گھروں میں پہنچ سکتی ہے۔ یہ دہلی والوں کو سوچ سمجھ کرفیصلہ لینا پڑےگا۔ یہ لوگ آپ کے گھروں میں گھسیں گے۔ یہ لوگ  آپ کی بہن بیٹیوں کو اٹھائیں گے، ان کا ریپ کریں گے، ان کو ماریں گے، اس لئے آج وقت ہے، کل مودی جی نہیں آئیں  گے بچانے، کل امت شاہ جی نہیں آئیں گے، آج وقت ہے…

لہٰذا یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امت شاہ کا دعویٰ جھوٹا تھا۔

fake 3

شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج مسلسل جاری ہے اور حکومت ہر کوشش کر رہی ہے کہ آل انڈیا سطح پر ہو رہے ان مظاہروں کے مرکز دہلی کے شاہین باغ کے احتجاج کو سب سے پہلے ختم کیا جائے۔ اس احتجاج کو ختم کرنے یا شاہین باغ سے منتقل کرنے کے لئے میڈیا میں بھی ماحول بنایا گیا اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے سینئر وکیلوں کو شاہین باغ بھیجا گیا تاکہ اس معاملے کا بہتر حل نکالا جا سکے۔  لیکن ان قانونی اور سیاسی اقدامات سے بے خبر سوشل میڈیا پر آئی ٹی سیل اپنے ہی انداز میں نظر آئے ۔ پربھو ساگر نامی فیس بک صارف نے ایک تصویر اپنے پروفائل پر اپلوڈ کی جس کے ساتھ کیپشن میں لکھا کہ؛

ثبوت چاہیے تو کمینٹ کریں ۔ دلیل میں بھیجوں گا ۔شاہین باغ کے پیچھے والے نالے میں نگر پالیکا اہلکاروں  کو صفائی کرتے وقت یہ نظارہ دیکھنے کو ملا ۔

پربھو ساگر نے جس تصویر کو اپلوڈ کیا تھا اس میں  کثیر تعداد میں کانڈوم  پڑے تھے جس کی مدد سے یہ گمان ایجاد کیا گیا کہ شاہین باغ میں احتجاج کے نام پر اور بھی بہت کچھ چل رہا ہے جو قابل شرم ہے ۔  متعصب فیکٹ چیک ویب سائٹ فیکٹ ہنٹ کے معاون بانی نے بھی اس تصویر کو ٹوئٹ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ تصویر شاہین باغ کے پیچھے والے نالے سے حاصل ہوئی ہے ۔

 آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ تصویر تقریباً تین سال پرانی ہے اور اس کوlanhmanh.comنامی ویب سائٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے جہاں یہ تین سال پرانی اسٹوری میں موجود ہے ۔ یہ ویت نام کی ویب سائٹ ہے جس پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تصویر بوائز ڈار مٹری سے حاصل کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دوسری ویب سائٹوں پر بھی یہ مختلف دعووں کے ساتھ موجود ہے۔ آلٹ نیوز  اس تصویر کےاصل ماخذ تک نہیں پہنچ پایا لیکن اُن کی تحقیق سے یہ پختہ ہو گیا کہ یہ تصویر تین  سال پرانی ہے اور شاہین باغ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

15 فروری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ تشدد کی کچھ ویڈیو وائرل  ہوئیں جن کو مین اسٹریم میڈیا میں بھی نشر کیا گیا۔ گزشتہ سال 15دسمبر  کی رات کو دہلی پولیس نے جامعہ کیمپس میں گھس کر طلبا پر ظلم کیا تھا اور یونیورسٹی کے وسائل کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اس معاملے کے تقریباً ڈیڑھ مہینہ بعد 30 جنوری کو جامعہ میں گوپال نامی شخص نے فائرنگ کی تھی جس میں یونیورسٹی کے طالبعلم شاداب فاروق زخمی ہو گئے تھے۔ شاداب فاروق ماس کمیونی کیشن کے طالب علم ہیں اور موسیقی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اُن کا قد اونچا ہے اور اُن کے سر پر بڑے بال ہیں۔ سوشل میڈیا پر اُن کی تصویر سے سبھی روبرو ہیں۔

جب 15 فروری کو پولیس کی ظلم و زیادتی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا میں اُن کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔ 15 فروری کی ویڈیو کے ایک فریم کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ لمبے بالوں والا یہ شخص شاداب ہے جو اس رات تشدد میں شامل تھا۔ سوشل میڈیا میں یہ دعویٰ بھگوا ہینڈل سے کیا گیا جس میں کچھ نام نہاد فیکٹ چیکر ویب سائٹ کے بانی بھی تھے۔

آلٹ نیوز نے وائرل ویڈیو کے اس فریم کی جانچ کی جس کی مدد سے شاداب کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس فریم میں دکھایا گیا تھا کہ فریم کو کیمرے میں 15دسمبر کو قید کیا گیا ہے اور اس کا وقت شام 6 بج کر 5 منٹ اور 30 سیکنڈ ہے۔

fake 4

آلٹ نیوز نے شاداب فاروق سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ جس وقت یہ ویڈیو فریم ریکارڈ کیا گیا تھا اس وقت وہ اپنے احباب کے ساتھ جشن ریختہ کے پروگرام میں میجر دھیان چند اسٹیڈیم میں تھے۔ آلٹ نیوز کو شاداب کی دوست نوافاطمہ سے ایک تصویر بھی حاصل ہوئی جس میں شاداب اور اُن کے تمام احباب ایک گروپ فوٹو میں ہیں اور یہ فوٹو جشن ریختہ کا ہی ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے کہ یہ فوٹو اسی وقت کا ہے یا نہیں، آلٹ نیوز نے تصویر کے EXIF ڈیٹا پر تفتیش کی۔ جس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ جامعہ میں پولیس کے حملے کے وقت شاداب جشن ریختہ میں اپنے احباب کے ساتھ تھے اور وائرل ویڈیو سے ان کو صرف بدنام کیا جا رہا ہے۔

فیس بک اور ٹوئٹر پر جامعہ میں پولیس کی بربریت کی ویڈیو آنے کے بعد میڈیا نے بھی اپنا اصل رنگ دکھایا اور جامعہ کے ایک طالب علم کے ہاتھ موجود پرس کو پتھر قرار دیا۔ دی وائر کی تفتیش یہاں دستیاب ہے۔