خبریں

آسام این آر سی کی فہرست میں ’نااہل‘ لوگ شامل، ان کی پہچان کریں حکام: این آر سی کنوینر

آسام این آر سی کی حتمی  فہرست کے شائع ہونے کے لگ بھگ چھ مہینے بعد ریاست کے این آر سی کنوینر ہتیش دیو شرما نے ریاست کے سبھی 33 اضلاع کے حکام  سے اس لسٹ میں شامل ہو گئے ‘نااہل ’ لوگوں کے ناموں کی جانچ کرکے اس کی جانکاری دینے کو کہا ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: آسام میں این آر سی کی حتمی فہرست  کے شائع ہونے کے لگ بھگ چھ مہینے بعد انتظامیہ کی جانب سے اس فہرست سے ‘غیرملکیوں’ کو باہر نکالنے کے لیے انترنل جانچ کی کارروائی  شروع ہو گئی ہے۔ این آر سی کنوینر کا یہ کہنا ہے کہ حتمی فہرست میں کچھ نااہل  لوگوں کے نام بھی جڑ گئے ہیں۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، انتظامیہ کی جانب سے اس فہرست کو رجسٹرار جنرل آف انڈیا کو بھیجے جانے سے پہلے اس کی  جانچ کی  جا رہی ہے۔ وہیں این آر سی کوآرڈنیٹر ہتیش دیو شرما نے سبھی 33 ضلعوں کے ڈپٹی کمشنر سے کہا ہے کہ وہ این آر سی کی حتمی  فہرست میں جڑ گئے ‘نااہل ’ لوگوں کے بارے میں جانکاری دیں۔

این آر سی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ یہ قدم این آر سی کے شائع ہونے  کی کارروائی  کا حصہ ہے جہاں یہ چیک کیا جاتا ہے کہ کہیں کوئی نااہل شخص لسٹ میں نہیں جڑ گیا ہے۔ حالانکہ این آر سی سے جڑے ایک ذرائع  کے مطابق یہ کارروائی  اگست 2019 میں حتمی  فہرست کی اشاعت سے پہلے بھی کی جا چکی ہے۔

جن زمروں  کی  جانچ کی  جائےگا، وہ ڈاؤٹ فل ووٹر(مشکوک رائے دہنگان)، ڈکلیئرڈ فارنر وہ لوگ جن کے کیس فارنرس ٹربیونل میں زیر التوا ہیں اور ان سبھی کی اولادیں  شامل ہیں۔ سپریم کورٹ، جس کی نگرانی میں یہ پوری کارروائی مکمل  ہوئی ہے، نے بھی ہدایت دیے ہیں کہ ان سبھی زمروں میں آنے والے لوگوں کا نام ہولڈ پر رہےگا اور این آر سی کی حتمی فہرست میں نہیں جوڑا جائےگا۔

19 فروری 2020 کوڈپٹی کمشنروں  اور آسام کے سبھی اضلاع کے این آر سی ضلع  رجسٹرار کو ہتیش دیو شرما کی جانب سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ایسا معلوم چلا ہے کہ 31 اگست 2019 کو این آر سی کی حتمی  فہرست کی اشاعت  کے بعد اس میں کچھ نااہل  لوگوں کے نام پائے گئے ہیں۔ حتمی  فہرست میں 3.3 کروڑ درخواست گزاروں  میں سے 19 لاکھ سےزیادہ لوگ سے باہر کر دیے گئے تھے۔

ذرائع  کے مطابق،انتظامیہ  کا یہ قدم این آر سی کی فہرست کو از سرنو کھلوانے کے لیے ماحول بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہو سکتا ہے۔ این آر سی کنوینر کی جانب  سے ایسا کہا جانا این آر سی کارروائی کے بھروسےپر سوال کھڑے کرتا ہے۔

این آر سی کی فہرست کی اشاعت  کے بعد سے ہی اس پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں لوگوں میں سب سے پہلے ریاست  کی حکمران پارٹی بی جے پی رہی تھی۔ 31 اگست کو حتمی فہرست کی اشاعت  کے بعد بی جے پی  نے کہا تھا کہ وہ این آر سی کی اپ ڈیٹ ہوئی فہرست پر بھروسہ نہیں کرتی ہیں۔

بھاجپا آسام کے صدر رنجیت کمار داس نے ایک پریس کانفرنس  میں کہا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست میں سرکاری طور پر پہلے بتائے گئے اعداد وشمار کے مقابلے باہر کیے گئے لوگوں کی بہت چھوٹی تعداد بتائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ہم اس این آر سی پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ ہم  خوش  نہیں ہیں… ہم مرکز اور ریاست کی سرکاروں سے ملک گیر سطح  پراین آر سی تیار کیے جانے کی اپیل کریں گے۔’

اس کے بعد ریاست کے سینئر رہنما اور وزیر خزانہ  ہمنتا بسوا شرما نے بھی کہا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست میں کئی ایسے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں جو 1971 سے پہلے بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے تھے۔

اس کے بعد ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا تھا، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ جو ہم چاہتے تھے اس کے الٹ ہوا۔ ہم سپریم کورٹ کو بتائیں  گے کہ بی جے پی اس این آر سی کو خارج کرتی ہے۔ یہ آسام کے لوگوں کی پہچان کا دستاویز نہیں ہے۔’

اس این آر سی کی حتمی فہرست سے ناراض ہونے والوں  میں آسام پبلک ورکس (اے پی ڈبلیو) نام کا غیر سرکاری تنظیم  بھی ہے، جو سپریم کورٹ کی نگرانی کے تحت آسام میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے عدالت  میں کلیدی عرضی گزار تھی۔

اےپی ڈبلیو کا کہنا تھا کہ حتمی این آر سی فہرست کی کارروائی  کو خامیوں کے ساتھ پورا کیا گیا تھا۔ اےپی ڈبلیو نے ایک ایف آئی آر درج کراتے ہوئے این آر سی کے سابق ریاستی کنوینر پرتیک ہجیلا اور ان کے قریبی معاونوںکے ذریعے سرکاری پیسے کے غبن معاملے کی اعلیٰ سطحی  جانچ کرانے کی اپیل کی تھی۔

پرتیک ہجیلا پر حتمی فہرست میں ‘خامیوں’ کے لیے خلاف دو اور ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ پہنچا اےپی ڈبلیو، کہا-این آر سی فہرست میں ‘جہادیوں’کے نام شامل

اےپی ڈبلیو نے این آر سی کی پوری کارروائی کی صدفیصد از سرنو تصدیق کی اپیل  کے ساتھ سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ تنظیم  نے این آر سی کے اپ ڈیٹ کرنے میں شامل خامیوں  کا پتہ لگانے کے لیے ایک جوڈیشیل کمیٹی کے ذریعے جانچ کرائے جانے کی بھی مانگ کی ہے۔

گزشتہ سوموار کو عدالت میں دائر ایک نئے حلف مامے میں اےپی ڈبلیو نے الزام  لگایا کہ 31 اگست، 2019 کوشائع این آر سی کی فہرست میں کئی مقامی  لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں، جبکہ کئی غیرقانونی مہاجرین کے نام فہرست میں شامل ہیں۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ این آر سی فہرست میں جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کے چار ‘جہادیوں’کے نام تھے، جنہیں بارپیٹا ضلع سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا کہ این آر سی کی فہرست میں جن گرفتار ‘جہادیوں’ کے نام شامل ہیں، ان میں اظہرالدین، رنجیت علی، لوئٹ جمیؤل جمال اور مقدر الاسلام ہیں۔

اس سے پہلے عدالت  میں این جی او کی جانب سےدائر ایک عرضی  کی وجہ سے نارتھ -ایسٹ میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تازہ حلف نمامے میں اےپی ڈبلیو نے یہ بھی اپیل  کی ہے کہ سی بی آئی، این آئی اے اور ای ڈی جیسی ایجنسیوں کو این آر سی کے سابق کنوینر پرتیک ہجیلا کے ذریعےاین آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کی کارروائی میں کی گئی پیسےکی مبینہ  ہیراپھیری اور بے ضابطگیوں  کی جانچ کرنے کی اجازت دی جائے۔

خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے اےپی ڈبلیو کے صدرابھیجیت شرما نے کہا، ‘تازہ ترین  حلف نامے میں ہم نے اپیل  کی ہے کہ این آر سی کے جواز کو کورٹ  کی آئینی بنچ  کے سامنے زیر التوا دو معاملوں کے حتمی  نپٹارے تک نہ مانا جائے۔’

انہوں نے کہا، ‘این آر سی کارروائی کو فی الحال روک دیا جانا چاہیے اور پوری کارروائی  کی  100 فیصدی از سرنو تصدیق  کی جانی  چاہیے۔’

این آر سی ڈیٹا واپس آن لائن ہوا

اس بیچ این آر سی کنوینر ہتیش دیو شرما نے یہ بھی بتایا کہ این آر سی کی سرکاری  ویب سائٹ سے آف لائن ہوا ڈیٹا واپس آن لائن ہو گیا ہے۔

واضح  ہو کہ گزشتہ  دنوں این آر سی کی حتمی  فہرست کا ڈیٹا کے اس کی سرکاری  ویب سائٹ سے آف لائن ہونے کی بات سامنے آئی تھی، جس کے بعد وزارت داخلہ  نے بتایا تھا کہ تکنیکی وجہوں سے  ایسا ہوا ہے۔

این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست 2019 کو شائع  ہونے کے بعد اصلی ہندوستانی شہریوں کو شامل کئے جانے اور باہر کئے گئے لوگوں کی پوری جانکاری اس کی سرکاری  ویب سائٹ www.nrcassam.nic.in پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔ شرما کے مطابق اب اس ڈیٹا کو واپس اسی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)