خبریں

دہلی تشدد: رپورٹنگ کرنے گئے ایک صحافی کی آپ بیتی؛ ’ہندو ہو؟ بچ گئے، بولو جئے شری رام…‘

متاثرہ صحافی نے بتایا کہ ،انہوں نے میرا موبائل فون لوٹانے سے پہلے اس میں پڑے سارے فوٹو اور ویڈیو ڈیلیٹ کر دیے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ‘تم یہاں کیوں آئے ہو؟…کیا تم جے این یو سے ہو؟ جان بچانے کے لیے مجھے وہاں سے بھاگنے کے لیے کہا گیا ۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: نارتھ ایسٹ دہلی میں ہوئے تشدد  میں مرنے والوں کی تعداد بدھ  کو بڑھ کر 20 ہو گئی جبکہ کم سے کم 250 لوگ زخمی  ہو گئے ہیں جن میں سے کئی لوگ شدید طور پر زخمی  ہیں۔ ہیڈ کانسٹیبل سمیت زیادہ تر متاثرین  کی گولی لگنے سے موت ہوئی ہے۔گزشتہ اتوار  سے ہی قومی راجدھانی دہلی میں شر پسند عناصروں  کی بھیڑ لاٹھی ڈنڈے، راڈ اور چھڑی لے کر گھوم رہی ہے اور مسلمانوں کے گھر اور دکانیں جلا رہی ہے۔ حالانکہ، جب شر پسند عناصروں  کی بھیڑ سڑکوں پر فسادات  کر رہی تھی اور لوگوں پر حملہ کر رہی تھی تب دہلی پولیس زیادہ تر خاموش تماشائی بنی رہی۔دہلی میں ہوئے تشدد میں اب تک 20 لوگوں کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

تشدد  کو دیکھتے ہوئے کئی علاقوں میں دفعہ 144 لگا دی گئی ہے۔ خاص کر موج پور، کردم پوری، چاند باغ، دیال پور جیسے علاقوں میں زیادہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ پتھربازی کی خبریں آنے کے بعد کھجوری خاص علاقے میں ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) کو تعینات  کر دیا گیا ہے۔اس سے پہلے منگل کی صبح دہلی  ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کمشنر کو نوٹس جاری کیا اور دوپہر 12.30 بجے تک قومی راجدھانی میں تشدد  بھڑ کانے والوں کے خلاف کارروائی پر اسی دن رد عمل مانگا۔

اس تشدد کی رپورٹنگ کر رہے انڈین ایکسپریس  کے ایک صحافی شیونارائن راج پروہت ماب کا شکار ہونے سے بال بال بچے۔ شیونارائن نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے بھیڑ کا سامنا کیا اور بھیڑ نے ان سے کہا کہ ‘ہندو ہو؟ بچ گئے۔’ اس پورے واقعہ  کے بارے میں انہوں  نے بتایا کہ؛

‘اس وقت دوپہر کے تقریباً1 بجے تھے۔ نارتھ-ایسٹ دہلی کے کراول نگر کے پاس بیچ سڑک پر ایک بیکری شاپ کے کچھ سامان اور فرنیچر ادھ جلی حالت  میں پڑے تھے اور میں اس شاپ کا فون نمبر لکھتے وقت اچانک رک گیا۔ 40 سالہ  ایک نوجوان میرے پاس آیا اور اس نے پوچھا…’کون ہو تم؟ یہاں کیا کر رہے ہو؟…میں نے بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ ‘مجھے اپنا نوٹ بک دو…اس نے نوٹ بک کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور اسے  اس میں کچھ بھی مشتبہ  نہیں ملا۔ اس میں صرف کچھ فون نمبر تھے اور اس جگہ  کے بارے میں آنکھوں دیکھی حالت لکھی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے دھمکی دی کہ تم یہاں سے رپورٹنگ نہیں کر سکتے…اس نے میرے نوٹ بک کو جلے ہوئے بیکری کے سامانوں کے بیچ پھینک دیا۔

اس کے بعد تقریباً 50 لوگوں کی بھیڑنے مجھے گھیر لیا انہیں شک تھا کہ میں نے وہاں ہوئے تشدد کی کچھ تصویریں اپنے موبائل فون سے کھینچی ہیں۔ انہوں نے میرے فون کی جانچ کی اور کوئی بھی ویڈیو یا فوٹو میرے موبائل سے نہیں ملا۔ لیکن انہوں نے میرا موبائل فون لوٹانے سے پہلے اس میں پڑے سارے فوٹو اور ویڈیو ڈی لیٹ کر دیے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ‘تم یہاں کیوں آئے ہو؟…کیا تم جے این یو سے ہو؟ جان بچانے کے لیے مجھے وہاں سے بھاگنے کے لیے کہا گیا اور مجھ سے ایسے سوال پوچھے  گئے۔

جائے وقوع سے تقریباً200 میٹر کی دوری پر میں نے اپنی بائیک پارک کی تھی اور میں اس طرف جانے لگا۔ جیسے ہی میں پارکنگ کے پاس پہنچا لاٹھی اور راڈ سے لیس دوسرا گروپ میرے پاس آ گیا۔ اس گروپ میں شامل ایک شخص نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا اور اس نے مجھ سے پھر کہا کہ اپنا موبائل دکھاؤ…میں نے ان سے کہا کہ میرے موبائل سے سبھی فوٹو اور ویڈیو ڈی لیٹ ہو چکے ہیں۔ وہ دوبارہ چلایا…’فون دے’…وہ میرے پیچھے کھڑا ہو گیا اور اس نے میری جانگھوں پر 2 ڈنڈے مارے…میں کچھ دیر کے لیے ساکت ہو گیا۔

اس بھیڑ سے کچھ آوازیں بھی آئیں…تمہارے لیے کیا قیمتی ہے تمہاری زندگی یا فون؟ میں نے اپنا فون لڑکے کو دے دیا…وہ لڑکا شور مچاتا ہوا بھیڑ میں گم ہو گیا۔

کچھ ہی لمحے بعد دوسری بھیڑ میرا پیچھا کرنے لگی۔تقریباً 50 سال کا ایک شخص مرے پاس آیا او راس نے میرا چشمہ زمین پر پھینکا اور اسے کچل دیا۔ ہندو اکثریتی  علاقے سے رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے اس نے مجھے دو تھپڑ مارے۔ ان لوگوں نے میرا پریس کارڈ چیک کیا اور بولے ‘شیونارائن راج پروہت، ہاں…ہندو ہو؟ بچ گئے’ لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئے وہ اچھی طرح سے یقین  کر لینا چاہتے تھے کہ میں اصل میں ہندو ہی ہوں۔ انہوں نے مجھ سے کہا – بولو جئے شری رام…میں  خاموش تھا۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ زندگی بچانے چاہتے ہو تو جلدی بھاگویہاں سے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ‘ایک اور بھیڑ آ رہی ہے آپ کے لیے’ میں بائیک کی چابی نکالنے کے لیے اپنا بیگ چیک کر رہا تھا۔ ہر ایک منٹ مجھ پر بھاری  تھا۔ تب ہی ان میں سے ایک نے کہا کہ ‘جلدی کرو وہ لوگ چھوڑیں گے نہیں۔’ آخرکار مجھے اپنی بائیک کی چابی مل گئی اور میں پشتہ روڈ کی طرف چل پڑا۔’