فکر و نظر

دہلی تشدد کے ذمہ دار اقتدار میں بیٹھے ہیں…

دہلی تشدد کی تیاری میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ، دوسرے مرکزی وزراءاور بی جے پی کے رہنماؤں کا براہ راست اور بالواسطہ مسلم مخالف اشتعال انگیزکردار ہے۔ اگر کبھی اس تشدد کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہوئی، جس کی امید نہ کے برابرہے تو ان سب پر ان تمام قتل کے لئے ذمہ داری طے کی جائے‌گی۔

شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار علاقے میں شرپسندوں کے ذریعے جلائی گئیں گاڑیاں۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار علاقے میں شرپسندوں کے ذریعے جلائی گئیں گاڑیاں۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اس جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہی ہوگا کہ دہلی کا تشدد خودبخود ہواتھا۔ یہی وزارت داخلہ نے کہا ہے۔ وزارت داخلہ میں وزیر داخلہ ہوتا ہے لیکن باقی افسر ہوتےہیں۔ وزیر داخلہ کی سیاست تو صاف ہے لیکن کیا ان سب افسروں نے کیا اپنا ایمان بیچ دیا؟ ہمارے ملک کے سب سے طاقتور عہدوں پر جلوہ افروز یہ ہمارے حکمران کیا صرف حکمی بندے ہیں؟جب عدالت کو آدھی رات بیٹھنا پڑے اور پولیس کو یہ ہدایت دینی پڑےکہ وہ زخمیوں کی مدد کے لئے ایمبولینس کو آنے-جانے کی اجازت دے اور طے کرے کہ آنے-جانے میں خلل نہ ہو، تب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دہلی اور ملک کس حالت میں پہنچ گیا ہے کہ یہ خودبخود نہ تھا۔

پولیس کا یہ رخ کیا خودبخود تھا؟ جب بھری عدالت میں پولیس کاسینئر افسر یہ کہے کہ اس نے اس اشتعال انگیز تقریر کا ویڈیو نہیں دیکھا ہے جوحکمراں جماعت کے ایک رہنما نے دیا اور جس کے بعد تشدد شروع ہوا اور پھر عدالت کوپولیس افسر کو مجبور کرنا پڑے کہ وہ بھری عدالت میں وہ ویڈیو دیکھے، تب بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نظم و نسق بنائے رکھنے میں پولیس کی کتنی دلچسپی ہے۔جب ملک کا سرکاری وکیل اس سب کےبعد پولیس کی طرف سے معافی مانگنےکی جگہ عدالت کو کہے کہ وہ پولیس کے اوپر کوئی منفی تبصرہ نہ کرے کیونکہ اس کاحوصلہ گر جائے‌گا لیکن اس کے لئے ذرا بھی شرمندہ نہ ہو کہ اس پولیس کی نگرانی میں تشدد ہوتا رہا تو حوصلہ لفظ کے معنی بدل دیا جانا چاہیے۔

یہ سب سکھوں نے 1984 میں دیکھا تھا۔ مسلمانوں نے بار بار۔ آزادی ملنے کے بعد ہر کچھ وقت کے بعد مسلمانوں نے یہ دیکھا ہے۔ پولیس کی نگرانی میں ان کو مارا جانا اور برباد کیا جانا۔ دہلی میں پچھلے ہفتے جو بھی ہوا، وہ نیا نہ تھا۔ہمارے دہلی کے دوستوں نے 1984 میں سکھوں پر حملے کو آسان بنانے میں پولیس کا حوصلہ دیکھا تھا اور مجھ جیسے لوگوں نے پٹنہ میں۔ یہ نیا نہیں ہے، نہ پولیس کا من اور نہ اس کی طاقت، پھر بھی دہلی کی اسی پولیس کا رخ عدالت کی سختی کےبعد بدلا تو نیا تو کچھ تھا اس بار جو پہلے نہ تھا۔

نیا یہ تھا کہ حکمراں جماعت کے رہنما لگاتار تشدد کی تیاری کریں،اپنے عوام کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لئے اکسائیں اور ان سب کو ان کے اظہار کاحق مانا جائے۔ بار بار کپل مشرا کی سب سے تازہ تشدد آمیز تقریر کا حوالہ دیا جارہا ہے لیکن مشرا نے تو اپنے رہنماؤں کے اشاروں پر عمل بھر کیا ہے۔جب ملک کے غداروں کو گولی مارنے کا کھلےعام اعلان ایک مرکزی وزیرکروائے، جب دوسرا مسلمانوں کو سیدھے سبق سکھانے کی بات کرے، جب وزیر داخلہ دھرناپر بیٹھی مسلمان عورتوں کو کرنٹ کا جھٹکا دینے کی بات کرے، جب وزیر اعظم مسلمانوں کے غصہ کے مظاہرہ کو ایک تجربہ ٹھہرائے تب یہ سمجھنے میں کوئی پریشانی نہ ہونی چاہیے کہ کپل مشرا کی تقریر ایک لمبے سلسلے کی اب تک کی آخری کڑی تھی۔

آخر پرویش ورما کو شاہین باغ کے خلاف زہریلے بیان کے بعد منتخب کیاگیا صدر کے خطاب کے بعد چرچہ  شروع کرنے کے لئے۔ یہ اگر ان کی پیٹھ تھپتھپانا نہ تھا تو پھر کیا تھا؟ اس کے بعد بھی اگر اس تشدد کے ماخذ کو لےکر الجھن ہے، تو مان لینا چاہیے کہ ہم ایک سچ دیکھ تو رہے ہیں لیکن اس کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔بار بار صحافی پوچھ رہے ہیں کہ امریکہ کے صدر کے آنے کے وقت ہی تشدد کیوں بھڑکا؟ کیا یہ کسی کی سازش تھی ہندوستان کی امیج بگاڑنے کی؟ اس میں کہیں اشارہ یہ ہے کہ یہ تشدد کیسے حکمراں جماعت چاہ سکتا تھا جب امریکہ کا صدر ہندوستان کے دورے پر ہو؟

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

لیکن جو صدر خود مسلمان مخالف ہے، جو خود اپنے ملک میں ان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرتا ہے، اس کو آخر ہندوستان کے مسلمانوں کی فکر کیوں ہونےلگی؟ اور ہندوستان کی حکومت کو بھی عالمی رد عمل کی پرواہ کب سے ہونے لگی؟خاص طورپر تب جب اس کو یہ معلوم ہو کہ دنیا کے طاقتور ممالک میں خوداقلیت-مخالف طاقتیں برسر اقتدار ہیں! کیا روس، کیا چین، کیا امریکہ اور کیاانگلینڈ! ابھی دنیا میں مسلمان مخالف تشدد کے پھلنے-پھولنے کا سب سے معقول اورمناسب وقت ہے۔ ہندوستان اس دنیا کی رہنمائی کر رہا ہے۔

کتنے لوگ مارے گئے ہیں، ٹھیک ٹھیک اس وقت کہنا مشکل ہے۔ جو مارےگئے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا قتل گولیوں سے ہوا ہے۔ گھروں، دکانوں میں پولیس کےسامنے آگ لگائی گئی اور وہ خاموش دیکھتی رہی ہے۔ کئی جگہ وہ تشدد آمیز بھیڑ کی مددکرتی ہوئی اور بڑھاوا دیتی بھی دکھ رہی ہے۔مرنے والوں میں ہندو بھی ہیں، لیکن اس وجہ سے اس کو ہندو-مسلمان فساد کہنا ابھی بھی غلط ہے۔ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ہندو مارے گئےتھے۔ یہ مان لینا کہ جب تک مسلمان خاموشی سے مرتا نہیں رہتا، تشدد دوطرفہ ہے ہمارےاخلاقی ابہام کا ثبوت ہے۔

اس تشدد میں ہندو ضرور مارے گئے ہیں لیکن حملہ مسلمان علاقوں پرہوا ہے، پولیس ہندو حملہ آوروں کی پیٹھ پر کھڑی ہوئی ہے، مسلمانوں کو ہاسپٹل سےبھگایا گیا ہے، ان کو ہاسپٹل نہیں پہنچانے دیا گیا ہے، شناختی کارڈ کی تفتیش کرکےمسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ مسلمان مخالف تشدد نہیں ہے تو پھر اور کیاہے؟میں دوہرانا چاہوں‌گا، اس تشدد کی تیاری میں وزیر اعظم، وزیرداخلہ، دوسرے مرکزی وزراء اور بی جے پی کے رہنماؤں کے براہ راست اور بالواسطہ مسلمان مخالف اشتعال انگیز کردار ہے۔ اگر کبھی اس تشدد کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہوئی، جس کے ہندوستان میں امید نہ کے برابر ہے تو ان سب پر ان تمام قتل کے لئےذمہ داری طے کی جائے‌گی۔ ان میں سے کوئی بھی خود کو اس تشدد سے بری نہیں کر سکتا۔یہ سب اس تشدد کے بلندی پر ہیں۔

یہ تشدد کیسے منظم کیا گیا ہے، اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ ابھی ہم ایک اعلان دیکھ رہے ہیں کہ شاہین باغ کے خلاف اسی علاقے میں ایک ہجوم کا۔ یہ تشددکا اعلان نہیں تو اور کیا ہے؟ شاہین باغ تو ہندوؤں کے خلاف مخالفت نہیں ہے، وہ حکومت کے خلاف ہے۔ پھر کون لوگ ہیں جو اس کو ہندو مخالف، ملک مخالف ٹھہرا رہے ہیں؟جب میں یہ لکھ رہا ہوں میرے پاس اسی ہجوم کے لئے تیاری کا ویڈیوبھیجا گیا ہے۔ یہ سیدھےسیدھے شاہین باغ کے خلاف تشدد کا اعلان ہے۔ اس مضمون میں دہلی حکومت، عام آدمی پارٹی کی بز دلی اور چالاکی کی بات نہیں کی جا رہی نہ کانگریس کی اخلاقی کمزوری کی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی آج سر اٹھاکر نہیں کھڑا ہوسکتا۔

کیا ہمارے پاس اب بھی وقت ہے اور اگر وہ ہے تو کیا اس کی خواہش ہےکہ ہم سچ بول‌کر، سچ کے ساتھ، مسلمانوں کے حق کے لئے ان کے کندھے سے کندھا ملاکرکھڑے ہو سکیں؟ یہ ہم سب کے امتحان کا وقت بھی ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)