فکر و نظر

اداریہ: بی جے پی نے جان بوجھ کر دہلی کو جلنے دیا

دہلی فسادات فرقہ وارانہ بنیادپر ملک کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بند کوشش کا نتیجہ ہیں۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

تین دنوں تک شمال مشرقی دہلی ہندوتواوادی رہنماؤں کے ذریعے شہریت(ترمیم) قانون کے مخالفین پر حملہ کرنے اور ان کو ڈرانے کے لئے اکٹھا کئے گئےہتھیاربند غنڈوں کے قبضے میں رہی۔ ان گروپوں اور ان کے رہنماؤں کا کردار ایسا تھاکہ اس تشدد نے جلد ہی کسی’سیاسی مقصد ‘ کا دکھاوا بھی چھوڑ دیا اور یہ مسلمانوں کے خلاف ایک ننگے فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل ہو گیا۔مرکز کی نریندر مودی حکومت-جس کے ذمہ قومی راجدھانی کا نظم ونسق ہے-ان کی ناک کے نیچے مچی غارت گری اور انتشار میں ایک پولیس اہلکار سمیت 40 سےزیادہ لوگوں کی جان چلی گئی ہے اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

اس منصوبہ بند تشدد میں مزدور طبقے-جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں-کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہو سکتا ہے کہ اتوار کو بی جے پی رہنما کپل مشرا کے ذریعے سی اے اے مخالف مظاہرین کو دیے گئےراستہ خالی کرنے یا انجام بھگتنے کے الٹی میٹم نے چنگاری بھڑکانے کا کام کیا۔لیکن اس کے ساتھ ہی کہیں گہرے ادارہ جاتی اور سیاسی عامل بھی ہیں،جنہوں نے دہلی کو اس گڈھے میں دھکیلنے میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ پہلی اور سب کونظر آنے والی وجہ ہے دہلی پولیس کا تعصب آمیز رویہ، جس کے پیچھے کافی حد تک مرکزکی حکمراں پارٹی بی جے پی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کا ہاتھ ہے۔

یونیورسٹی احاطوں سے لےکر سڑکوں تک بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کوآگے بڑھانے والی تشدد آمیز بھیڑ کے سامنے تماشائی بن‌کر کھڑے رہنا اور اس کو اپنی من مانی کرنے دینا، دہلی پولیس کی عادت بن گئی ہے۔عام شہری، خاص طورپرمسلمان-جو شہریت کے سوال کے ارد-گرد حکمراں پارٹی کےفرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست کا اہم نشانہ ہیں-قانون کے ایسے تعصب آمیزرکھوالوں سے کسی راحت کی امید نہیں کر سکتے ہیں۔

دہلی میں تشدد کے حالیہ واقعات میں بھی خطرے میں گھرے لوگوں کی حفاظت کرنے کی جگہ پولیس کو مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ہندوتووادی گروپوں کا حزب لیتے دیکھا جا سکتا تھا۔

Urdu-Editorial1

یہ حقیقت کہ پولیس تشدد کے شکار لوگوں کو محفوظ جگہوں پر پہنچانےکے لئے بھی کورٹ کی مداخلت کے بعد تیار ہوئی، ایک ڈراونی کہانی کہتی ہے۔ پولیس جس طرح سے کسی ڈسپلنری کارروائی  کا خوف کھائے بنا اپنی ڈیوٹی  سے کترا رہی ہے، اس نےایک ایسی حالت کو جنم دیا ہے، جس کو کسی بھی مہذب ملک کے لئے تشویش ناک کہا جا سکتاہے۔

گزشتہ کچھ راتوں سے ٹیلی ویژن کے پردے پر آنے والی تصویروں اورمختلف اداروں کے صحافیوں کے ذریعے تشدد آمیز گروپوں کے حملوں کا سامنا کرتے ہوئےبھی کی گئی رپورٹنگ نے 1984-آخری بار جب دہلی ایسے ہی منظم فرقہ وارانہ تشدد کی زدمیں آئی تھی،-اور 2002، جب نریندر مودی کی حکومت میں گجرات ریاست کئی ہفتوں تک جلتی رہی تھی، کی خوفناک یادوں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔

دوسری بات، ان سب کے دوران بی جے پی اور سنگھ پریوار کے رہنماؤں کےکردار قابل مذمت رہے ہیں۔ کپل مشرا کے علاوہ پارٹی کے ایم ایل اے اور رہنماؤں نےیا تو کھلےعام مسلم مخالف نفرت کو بھڑکانے کا کام کیا ہے یا سی اے اے مخالف مظاہرہ-جو پوری طرح سے پر امن رہے ہیں-کو غدار وطن قرار دےکر ان کو بدنام کرنے میں مدد کی ہے۔حالانکہ، اس دوران امت شاہ منظرنامہ سے غائب رہے، لیکن اب جونیئروزیر داخلہ نے میڈیا پر شکنجہ کسنے کی کوشش شروع کر دی ہے اور انہوں نے ان نیوزپلیٹ فارم پر کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے، جن کے ذریعے کئے گئے تشدد کی رپورٹنگ حکومت کے لئے شرمندگی کا سبب ثابت ہوئے ہیں۔

دکھ کی بات ہے کہ پچھلے مہینے دہلی میں بی جے پی کے خلاف بڑی جیت حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی (عآپ) بھی اس امتحان کی گھڑی میں بری طرح سے ناکام ثابت ہوئی۔ٹھیک ہے کہ نظم و نسق ریاستی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے، لیکن متاثرہ علاقوں میں اپنی حاضری درج کرنے کی جگہ عآپ کے رہنما غائب رہے۔ ہونایہ چاہیے تھا کہ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اپنے ایم ایل اے کو تشدد متاثرعلاقوں میں بھیجتے جہاں لوگ مایوس ہوکر مدد کے لیے پکار رہے تھے۔

منیش سیسودیا کے ساتھ مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ پر خراج عقیدت دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کی تصویر نے زخم پر اور نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ جب دہلی جل رہی تھی، تب اپنی طرف سے پہل کرنے کی جگہ آپ نے پردے کے پیچھے چھپ جانے کومناسب سمجھا۔پھر بھی عام آدمی پارٹی کا پیٹھ دکھاکر بھاگنا بی جے پی کے براہ راست رول کے سامنے دب جاتا ہے۔اس بات کو لےکر کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے کہ 2020 کی دہلی کے فسادات فرقہ وارانہ بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بند کوشش کا نتیجہ نہیں ہیں۔ پارٹی کی قیادت اور مرکز اور اتر پردیش جیسی ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں نے براہ راست اور بلاواسطہ طریقے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کا کام کیا۔

جس وقت دہلی جل رہی تھی، اس وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی خاطرداری کرنے میں مصروف وزیر اعظم کو ‘امن اور ہم آہنگی ‘کے لئے ٹوئٹ کرنے میں بدھ تک کا وقت لگ گیا۔ دہلی اور ان کی اپنی تاریخ کو دیکھتے ہوئے مودی کی خاموشی اپنی کہانی خود کہتی ہے۔