فکر و نظر

دہلی فسادات کے دوران جس صحافی کو گولی لگی، وہ کس حال میں ہے؟

خصوصی رپورٹ: شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کی کوریج کے لئے گئے ایک مقامی چینل کے نامہ نگار آکاش ناپا کو گولی لگی ہے۔ وہ جی ٹی بی ہاسپٹل  میں زیر علاج ہیں۔

نئی دہلی کے جی ٹی بی ہاسپٹل میں آکاش ناپا (فوٹو : سرشٹی شریواستو)

نئی دہلی کے جی ٹی بی ہاسپٹل میں آکاش ناپا (فوٹو : سرشٹی شریواستو)

شمال مشرقی دہلی میں پھیلے فساد کی کوریج کے لئے پہنچے صحافیوں کے ساتھ بد سلوکی، مارپیٹ اور تشدد کی تمام خبریں آئیں۔ منگل کو کھجوری میں ہو رہے تشدد کو جب دی وائر کی ٹیم کور کر رہی تھی تو اس دن دو نوجوانوں نے اس نامہ نگار کے فون کو چھین‌کر اس وقت ریکارڈ کئے گئے دو ویڈیو ڈیلیٹ کر دیے۔

ان لوگوں کے ساتھ کچھ خواتین کھڑی تھیں جو کہہ رہی تھیں کہ میڈیا سے نہ بات کرو، نہ ویڈیو لینے دو۔ اس کے بعد جب بھجن پورہ  کے اس ہندو اکثریتی محلے سے نکل‌کر ہم جعفر آباد کے راستے میں تھے، اس دوران ہمیں قریب تین کلومیٹر کے اس پیدل سفر میں چار جگہ ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جہاں ‘ جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے شرپسندوں کی بھیڑ پتھراؤ کر رہی تھی اور پولیس خاموش  تماشائی بنی کھڑی تھی۔

غور طلب ہے کہ اس دوران یہ سب ریکارڈ کرنے کی میڈیا کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جا رہا تھا۔ کئی میڈیا اہلکاروں سے بد سلوکی کی جا رہی تھی اور ان کو دھمکایا جا رہا تھا۔

اس بیچ پولیس آنسو گیس کے گولے چھوڑ رہی تھی، جس سے کئی میڈیا اہلکاروں کا بھی برا حال تھا۔ آخر میں ہمیں بھی وہاں سے نکلنا پڑا۔ میٹرو اسٹیشن تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ  نہیں تھا، جس کی وجہ سے سبھی  پیدل ہی جا رہے تھے۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ ایک گاڑی جل رہی تھی۔ جب اس کی فوٹو کھینچنی چاہی، تب پھر ایک آدمی نے آکر فون اندر رکھنے کو لےکر دھمکایا۔

کچھ پولیس اہلکار بغل میں کھڑے تھے، جب ان کو اپنا کارڈ دکھاکر ان سے اس آدمی کی شکایت کی، تب ہیلمٹ لگائے سب-انسپکٹر نے کہا، ‘ آپ یہاں اپنے رسک پر آئے ہو ہم سے تحفظ کی مانگ نہ کرو، ہمارے پاس فورس بہت کم ہے۔ ‘ جی ٹی بی ہاسپٹل میں بھرتی صحافی آکاش ناپا نے بھی ٹھیک یہی بات کہی۔

 آکاش ناپا وہ صحافی ہیں جن کو ان فسادات کی کوریج کے دوران گولی لگی ہے۔ 28 سالہ آکاش دو مہینے پہلے ہی مقامی ہندی چینل جے کے 24×7 سے جڑے ہیں۔ یہاں سے پہلے وہ پنجاب کیسری کے ساتھ کام کرتے تھے۔ آکاش نے بتایا کہ وہ جب منگل کو کھجوری بھجن پورہ  علاقے میں تھے، تب ان کو گولی لگی۔ انہوں نے بتایا، ‘ فسادی جب پتھراؤ کر رہے تھے یا گولیاں چلا رہے تھے، تب پولیس نے وہ قدم نہیں اٹھائے جو ایسے حالات میں اٹھانا چاہیے تھا۔ ‘

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پولیس سے مدد بھی مانگی تھی لیکن ٹکا سا جواب یہی ملا کہ ‘ ایسی حالت میں آپ پولیس سے مدد یا تحفظ کی امید نہ کریں۔ ‘ اس دن کا حال بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘ منگل کو میں نے بھجن پورہ  سے اپنے چینل کے لئے ایک لائیو کیا اور وہاں سے یمنا وہار کے راستے نکل پڑا۔ اس راستے میں فسادی گولیاں چلا رہے تھے۔ یہیں پر ایک گولی میرے کندھے پر آ لگی۔ ‘

آکاش نے آگے بتایا، ‘ جب گولی لگی میں کچھ دیر ہوش میں تھا، میرے سامنے جن دو دیگر لوگوں کو گولی لگی انہوں نے وہیں دم توڑ دیا ‘ ایسا بتاتے-بتاتے وہ رو پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو اس انہونی کی بالکل امید نہیں تھی۔ آکاش کو زیادہ فکر اپنے مستقبل اور کریئر کی ہے۔ ان کے والد رام پرکاش ناپا بھی صحافی رہ چکے ہیں۔ وہ’ ویر ارجن’ نام کے میڈیا ادارے میں کام کرتے تھے۔

رام پرکاش ناپا بتاتے ہیں، ‘ اس دن ہم نے ٹی وی پر آکاش کی کوریج دیکھی، آس پاس کوئی پولیس نہیں تھی۔ میرا دل بہت گھبرایا اور میں نے اس کو فون کرکے کہا کہ آپ کے آس پاس بھیڑ بڑھ رہی ہے اور کوئی پولیس والا نہیں دکھ رہا ہے۔ آپ کسی محفوظ جگہ پر جاکر اپنا کام کرو۔ ‘ رام پرکاش بتاتے ہیں کہ اس کے کچھ دیر بعد آکاش کا فون نہیں لگا۔ بعد میں انہیں فون آیا کہ آکاش کو گولی لگی ہے اور ہاسپٹل لے جایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سنتے ہی فیملی والے گھبرا گئے، آکاش کی بیوی بےہوش ہو گئیں۔

جب وہ ہاسپٹل پہنچے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو خون سے تربتر پایا۔ آکاش کے بھائی وکاس بھی صحافی ہیں اور این ڈی ٹی وی اور نیوز نیشن کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ‘ گولی ریڑھ کی ہڈی کے پاس تک پہنچ گئی ہے۔ آپریشن ہونا ہے۔ شاید یہ گولی کبھی بھی نہیں نکالی جا سکے۔ ‘ وکاس نے یہ بھی بتایا کہ دہلی وومین کمیشن چیف سواتی مالیوال ان سے ملنے آئی تھیں اور آکاش کا علاج پرائیویٹ ہاسپٹل میں کروانے کی بات کہی، جس سے ان لوگوں نے انکار کر دیا۔

وکاس کہتے ہیں کہ حکومت تیار ہے پر ہم نہیں کیونکہ تین دن بعد مدد کی تجویز کا کیا مطلب۔ اور اگر اب پرائیویٹ ہاسپٹل لے جاتے ہیں تو ابھی تک جتنا درد میرے بھائی نے سہا ہے وہ سب  پروسیس دوبارہ ہوگا۔ رام پرکاش آکاش کے چینل کا شکریہ اداکرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ چینل نے شروع سےہی ہر طرح کی مدد کی تجویز رکھی ہے۔ حالانکہ وہ اس طرح کے ماحول میں کام کرنے والے صحافیوں کو حفاظت مہیا کروانے کے بارے میں حکومت سے جواب چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ‘ میرا بیٹا وہاں کرکٹ نہیں کھیل رہا تھا، وہ کام پر تھا اور سچ دکھا رہا تھا۔ مجھے تو اس پر فخر ہے۔ پر سوال ان تمام صحافیوں کی حفاظت کا ہے جو ایسے ماحول میں کوریج کرتے ہیں۔ کیا حکومتوں کو اس پر کوئی پالیسی نہیں بنانی چاہیے؟ ‘ انہوں نے آگے کہا، ‘ صحافیوں کا کام فوج کے جوان کے کام سے کم اہم نہیں ہے، پر خیر جان تو کہیں بھی جا سکتی ہے۔ میرے بیٹے کے ساتھ حادثہ ڈیوٹی پر ہوا ہے اور اس کی کوئی جوابدہی تو ہونی چاہیے۔ ‘