فکر و نظر

دہلی فسادات کے دوران پولیس کو دیکھ‌ کر لگا مانو اس کو لقوہ مار گیا ہو: سابق ڈی جی پی پرکاش سنگھ

انٹرویو : گزشتہ  اتوار سے دہلی میں شروع ہوئے فساد کی آگ میں اب تک40 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ 300 سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔ اس دوران دہلی پولیس کے رول پر لگاتار اٹھ رہے سوالوں پر سابق ڈی جی پی پرکاش سنگھ سےوشال جیسوال کی بات چیت۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

گزشتہ اتوار سے دہلی میں شروع ہوئے فساد کی آگ میں اب تک 40 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ 300 سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔اس دوران قومی راجدھانی دہلی میں سیدھے مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آنے والی دہلی پولیس تماشائی بنی رہی۔

حملہ، آگ زنی، لوٹ پاٹ جیسے واقعات ہوئے اور لوگوں کی لاش نالے میں ملی۔ ہاسپٹل میں کہرام مچا ہوا ہے اور اپنوں کی لاش لینے کے لئے لوگوں کو لمباانتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ دہلی پولیس کے رول  پر اٹھ رہے سوالوں پر سبکدوش آئی پی ایس افسر پرکاش سنگھ سے وشال جیسوال کی بات چیت۔

دہلی کے حالیہ فسادات میں پولیس کے رول کو کیسے دیکھتے ہیں؟

پولیس کا رول مایوس کن رہاہے۔ اس کی وجہوں کے بارے میں ابھی توصاف صاف نہیں کہا جا سکتا ہے، لیکن موٹے طور پر ایک سنگین صورت حال کا سامنا کرتےہوئے قیادت کو جو فیصلہ لینا چاہیے وہ نہیں لے پا رہے تھے۔ سوموار کی شام تک قیادت میں فیصلہ لینے کی صلاحیت کی کمی دکھی۔منگل کی شام کے بعد سی تھوڑی سختی دکھائی گئی اور شوٹ اینڈ سائٹ کاحکم دئے جانے کے بعد حالات میں تھوڑی اصلاح ہوٕئی۔ بنیادی طور پر یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ قیادت کی کمی تھی اور سخت کارروائی کرنے میں کچھ جھجک تھی۔

اس میں وزارت داخلہ کا کیا کردار تھا یہ کہنا مشکل ہے۔ وزارت داخلہ سے کوئی ہدایت تھی یا نہیں تھی یہ تو پتہ نہیں۔ حالات بگڑنے کے بعد ذمہ داری توسبھی کی بنتی ہے۔ ایل جی  کی ذمہ داری ہے، وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعلیٰ کو باہر نکلنا چاہیے تھا، لوگوں کو سمجھانا چاہیے تھا۔کہیں کوئی رہنما باہر نہیں دکھ رہا تھا صرف پولیس اور فسادی دکھائی دے رہے تھے۔ کیا سیاسی رہنما صرف ووٹ مانگنے کے لئے ہیں اور حالات بگڑنے پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ مرکزی حکومت، ایل جی، وزیراعلیٰ، وزیر داخلہ سبھی کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن سیدھے طور پر پولیس اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نہیں نظرآئی۔

دہلی میں چھٹ پٹ تشدد سے شروعات ہوئی اور آہستہ آہستہ اس نےفساد کی صورت لے لیا، ایسی حالات میں پولیس کو کس طرح کی کارروائی کرنی چاہیے تھی؟ایسا نہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟یہ سیدھی-سی بات ہے کہ جب کہیں حالت بگڑنے کا اشارہ ملتا ہے یا اثربھی دکھتا ہے تو اسی وقت اس کو دبا دیجئے۔ گرفتاری کیجئے، امن کمیٹی بنائیے، گشت لگائیے، چھان بین کیجئے، ضبطی کیجئے یہ سب ہوتا ہے۔

وہی ہے کہ جب آگ لگی ہے تب آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں اور جب وہ آگ پکڑ چکی  تب آپ کہہ رہے ہیں اب یہ کنٹرول میں نہیں آ رہا ہے۔ شروع میں سوموار اور منگل کو کچھ نہیں کیا گیا… اب ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے غیر فعالیت کیوں دکھائی کیوں ان کو لقوہ مار گیا تھا؟

دہلی پولیس کی غیر فعالیت کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلےجامعہ تشدد اور جے این یو تشدد معاملے میں بھی ان کے رول سوالوں کے گھیرے میں تھا اور ان پرتمام طرح کے الزام لگے۔ کیا وجہ ہے؟

یہ سوال دہلی پولیس سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ میں اتنی غیر فعالیت کیوں آ گئی ہے، لقوہ کیوں مار گیا؟ کوئی آپ کا ہاتھ باندھے ہے یا کوئی کارروائی کرنے سے روک رہا ہے۔ اگر وہ ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے ہیں تو الزام انہیں پرجائے‌گا۔

خصوصی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک کی مدت کار کوبڑھایا گیا تھا لیکن اب ان کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ایک نئےاسپیشل  کمشنر ایس این شریواستو کی تقرری کر دی گئی تھی۔ کیا حکومت نے مان لیا کہ پٹنایک حالت کو سنبھالنے میں ناکام رہے؟

حکومت نے امولیہ پٹنایک کی ناکامی ماننے کے ساتھ ان کے قائم مقام کے لیے اعلان کر دیا اور کہہ دیا کہ آپ کام شروع کر دو کیونکہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔ میں شریواستو کے بارے میں بہت کچھ جانتا نہیں ہوں لیکن لگتا ہے حکومت کو کسی سخت افسر کی ضرورت تھی اور اس نے فیصلہ لے لیا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر(این ایس اے)اجیت ڈوبھال کے فساد متاثرہ علاقوں میں خود سڑک پر اترنے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

یہ این ایس اے کا کام نہیں ہے۔ یہ رہنماؤں یا پولیس کا کام ہے۔اگر اس کے لئے این ایس اے کو اترنا پڑے تو مجھے تو ناگوار گزرتا ہے کیونکہ آپ ایڈوائزر ہیں یا محلہ سکیورٹی  صلاح کار ہیں۔آپ کا کام تو یہ ہے کہ جو کام نہ کرے اس سے جاکر کام کرواؤ دھکادےکر کام کرواؤ اور پولیس کو محلوں میں بھیجو اور لوگوں سے بات کرنے کے لئے کہو۔