خبریں

میں کمشنر ہوتا تو کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر کو گرفتار کر چکا ہوتا: دہلی کے سابق کمشنر

بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل اور دہلی کے کمشنر رہ چکے اجئے راج شرما نے سینئر صحافی  کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے دہلی میں ہوئے حالیہ تشدد کے دوران پولیس کے رول پر سوال اٹھائے اور کہا کہ وہ فسادات کو سنبھالنے میں ناکام رہی۔

کرن تھاپر اور اجئے راج شرما، فوٹو: دی وائر

کرن تھاپر اور اجئے راج شرما، فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: دہلی کے سابق کمشنر اجئے راج شرما نے نارتھ–ایسٹ دہلی کے کئی علاقوں میں ہوئے حالیہ تشدد کے دوران دہلی پولیس کے رول پر سوال اٹھائے  اور کہا کہ اگر وہ اس وقت کمشنر ہوتےتو فوراً انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کو گرفتار کرتے۔

دی  وائر کے لیے سینئر صحافی کرن تھاپر کو دیے ایک انٹرویو میں دہلی کے سابق کمشنر اوربی ایس ایف  کے دائریکٹر جنرل  رہ چکے شرما نے کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ دہلی پولیس فرقہ پرست ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر چل رہے ویڈیو میں حالیہ تشدد کے دوران  پولیس کے رویے کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے۔

35 منٹ کی اس بات چیت میں انہوں نے یہ بھی مانا کہ دہلی پولیس نے فسادات کی صورت حال کو ٹھیک طرح سے نہیں سنبھالا اور اس سے پہلے ایسا ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرویونیورسٹی(جے این یو) میں ہوئے تشدد کے دوران بھی ہوا تھا۔

شرما نے کہا کہ دہلی پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک کے سامنے یہ سخت امتحان تھا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ بات چیت کی شروعات میں شرما نے سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف کے 26 فروری کو عدالت میں کہی  اس بات کو صحیح ٹھہرایا، جس میں انہوں نے ‘دہلی پولیس میں پیشہ ورانہ  رویے کی کمی’ کا ذکرکیا تھا۔

1966 کے اتر پردیش کیڈر کے آئی پی ایس اجئے راج شرما نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے حالات کو بدترہوکر دنگے میں بدلنے دیا۔ اگر انہوں نے شروعات میں ہی کوئی قدم اٹھایا ہوتا تواس کو روکا جا سکتا تھا۔

شرما کے مطابق،پولیس کی پہلی غلطی شاہین باغ  میں مظاہرے کو جاری رہنے دینا تھا۔ ان کے مطابق، شاہین باغ  میں لوگوں کا اکٹھا ہونا قانون کی  براہ راست خلاف ورزی ہے۔ یہ پبلک پراپرٹی  پر ہو رہا ہے اور کسی کو بھی سڑک بلاک کرنے اور اس کو متاثر کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر پولیس نے پہلے دن ہی شاہین باغ  کو لےکر کوئی قدم اٹھایا ہوتا، تو بہت کچھ جو اس کے بعد ہوا وہ نہیں ہوتا۔

شرما جولائی 1999 سے جون 2002 تک دہلی کے پولیس کمشنر تھے۔ ان کے مطابق،پولیس کی دوسری غلطی بھڑکاؤ بیان  دینے والے لوگوں کو وقت پر گرفتار نہ کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ کمشنر ہوتے تو انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کوفوراً گرفتار کرتے۔

نارتھ–ایسٹ  دہلی کے ڈی ایس پی وید پرکاش سوریہ، جو بی جےپی رہنما کپل مشرا کے23 فروری کی ایک ریلی میں پولیس کو ‘الٹی میٹم‘ دینے کے دوران مشرا کے ساتھ کھڑے تھے، ان کے بارے میں شرما نے کہا کہ انہوں نے فوراً سوریہ سے اس بارے میں صفائی مانگی ہوتی اور اگر وہ تسلی بخش نہیں ہوتا، تو وہ ان کو برخاست کر دیتے۔

شرما نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پولیس بی جےپی سے  سے ڈری ہوئی اور سرکار کے دباؤ میں دکھ رہی ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ فسادات کو مناسب طریقے سے سنبھال نہ پانا دکھاتا ہے کہ وہ نقصان پہنچانے والی سیاست کےدباؤ میں آ چکے ہیں۔

اجئے راج شرما نے آگے کہا کہ کسی بھی ملک کے لیے دشمن کے حملے کے بعد دوسراسب سے بڑا چیلنج فساد ہوتا ہے۔ انہوں نے مانا کہ اگر گزشتہ سنیچر کی شام یا اتوار کی صبح جب جعفرآباد میں چھٹ پٹ تشدد ہوئے تھے، تب پولیس نے کوئی قدم اٹھایا ہوتا تو دنگوں کو ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی مانا کہ یہ پوری طرح سے لاپرواہی کا معاملہ تھا اور غیر ذمہ داری کو دکھاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر پولیس کے ذریعےشرپسندوں کے مسلمانوں کی دکانیں جلائے جانے کے دوران تماشائی بنے رہنے یا خود مسلمانوں کو لاٹھیوں سے مارتے اور طنز کرتے ہوئے ان سے قومی ترانہ گانے کو کہنے کے ویڈیو سامنے آئے ہیں، ان کے بارے میں پوچھنے پر شرما نے کہا کہ انہوں نے یہ ویڈیو نہیں دیکھے ہیں، لیکن اگر وہ صحیح ہیں، تو یہ دکھاتے ہیں کہ دہلی پولیس فرقہ پرست ہو چکی ہے۔

29 فروری کو ریٹائر ہو رہے دہلی کے پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک کے بارے میں شرما نے کہا کہ ان کے سامنے سخت امتحان تھا، لیکن وہ اس میں ناکام  ہو گئے۔ عام طور پر پولیس کی قیادت کے بارے میں شرما نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس ریڑھ نہیں ہے اور ان میں اخلاقی جرأت کی کمی ہے۔

شرما نے این ایس اے اجیت ڈوبھال کے اس بیان کی حمایت  کی جہاں انہوں نے کہا تھا کہ ‘لوگ وردی پر بھروسہ نہیں کرتے… لوگ دہلی پولیس کی صلاحیت  اور ارادوں پرشک کر رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ مہینے دہلی پولیس کے لیے کافی خراب رہے ہیں۔ انہوں نے جامعہ اور جے این یو کے معاملے  کوصحیح طرح سے نہیں سنبھالا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے ضروری ہے کہ پولیس کو سیاسی  دخل سے دور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا تب ہو سکتا ہے جب یہ یقینی بنایا جائے کہ ڈی جی پی کا انتخاب تین یا چار نام والی کسی لسٹ سے نہ ہو اوروزرائے اعلیٰ کو اپنی پسند کی تقرری  کی اجازت نہ ہو۔

دوسرا سبھی سینئر پولیس حکام  کی ایک طے شدہ  مدت کار ہو، جس  کو  صرف بے حد ضروری وجہوں سے ہی کم کیا جا سکے۔ شرما نے کہا کہ اگر 2006 میں سپریم کورٹ کے ذریعے جاری مبینہ  پرکاش سنگھ گائیڈلائنس کو ٹھیک طرح سے عمل میں لایا جائے، تو پولیس فورسزکی آزادی اور اثرات  پر بڑا اثر پڑےگا۔

شرما نے آگے کہا کہ دوسرا سب سے ضروری کام دہلی پولیس کے اندر آئی خامیوں  کو دور کرنا ہے جو انہیں خود کرنا ہوگا، جس کے لیے سیاسی حمایت کی بھی ضرورت ہوگی۔ سب سے اہم  بات یہ ہے کہ پولیس کانسٹبل، جو مقامی پولیس تھانوں کو چلاتے ہیں اور پولیس کے ساتھ لوگوں کے رابطے کا پہلا مرحلہ ہوتے ہیں، کو دوستانہ، باصلاحیت اور خاکساری  سکھایا جانا چاہیے۔

اس مکمل انٹرویوکو دیکھنے کے لیے نیچے کلک کریں: