خبریں

دہلی فسادات: ایران نے ہندوستان سے مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے کی اپیل کی

دہلی فسادات پر سرکاری طور پر رد عمل دینے والا ایران چوتھا مسلم اکثریتی ملک بن گیا ہے۔ اس سے پہلے انڈونیشیا، ترکی اور پاکستان پچھلے ہفتے دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہوئے تشدد کے خلاف تبصرہ کر چکے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف(فوٹو : رائٹرس)

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: قومی راجدھانی دہلی میں ہوئے فسادات پر ایران نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اور دہلی فسادات پر سرکاری طور پر رد عمل دینےوالا وہ چوتھا مسلم اکثریتی ملک بن گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے سوموار کوہندوستانی افسروں سے اپیل کی کہ وہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر اور بے معنی تشدد کو پھیلنے سے روکیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کی سلامتی یقینی  بنائیں۔

اپنے لفظوں کو لےکر بہت ہی محتاط رہنے والے وزیر ظریف نےسوموار رات ٹوئٹ کر کےکہا، ‘ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم طور سے کئے گئے تشددکی ایران مذمت کرتا ہے۔ صدیوں سے ایران ہندوستان کا دوست رہا ہے۔ ہم ہندوستانی افسروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تمام ہندوستانیوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں  اور بےمعنی تشدد کو پھیلنے سے روکیں۔ آگے بڑھنے کا راستہ پر امن مذاکرہ اور قانون پر عمل کرنے سے ہموار ہوگا۔

ظریف کے ٹوئٹ سے پہلے انڈونیشیا، ترکی اور پاکستان پچھلے ہفتے دہلی کےشمال مشرقی علاقے میں ہوئے تشدد کے خلاف بول چکے ہیں۔ اس سے پہلے ملیشیا اور بنگلہ دیش شہریت ترمیم قانون (سی اے اے)اور مجوزہ این آر سی کی تنقیدکر چکے ہیں۔ہندوستان کی طرف سے ابھی تک اس پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا ہے لیکن اس سےپہلے وزارت خارجہ نے ترکی اور پاکستان کے بیان کو خارج کر دیا تھا۔ وہیں، ایران کےمعاملے میں امریکی پابندیوں کے ڈر سے ہندوستان نے اس سے تیل خریدنا بند کر دیا تھالیکن چابہار بندرگاہ پر کام کرنا جاری رکھا۔

جمعہ کو انڈونیشیا نے فسادات کو لےکر اپنے خدشات کوجکارتہ میں ہندوستان کےسفیر کو واقف کرایا تھا۔ اس سے پہلے انڈونیشیا کے مذہبی امور کی وزارت نے ایک بیان جاری کر کے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی تھی۔وہیں، پچھلے ہفتے دہلی فسادات کا ذکر کرتے ہوئے ترکی کے صدر اردگان نےدعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ہندوستانی مسلمانوں کے ریڈکلائزیشن کے خلاف وارننگ دی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے نہ صرف علاقے کے لئے بلکہ آخرکار دنیا کے لئےبھی تباہ کن نتیجہ ہوں‌گے۔

دسمبر میں سی اے اے کے خلاف بولتے ہوئے ملیشیا کے موجودہ وزیر اعظم مہاتیرمحمد نے سی اے اے کے خلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔حالانکہ، ہندوستان نے فوراً ان کے تبصرہ کو غلط قرار دیا تھا۔سی اے اے پاس ہونے کے ایک مہینے بعد جنوری میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ سی اے اے اور این آر سی ہندوستان کے اندرونی معاملے ہیں لیکن شہریت قانون غیرضروری تھا۔

گزشتہ سوموار کو وزیر خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شررنگلا نے حسینہ اور ان کی حکومت وزیر خارجہ اےکے عبدالغنی مومن سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور کہا کہ قانون پربدامنی عارضی ہے لیکن سی اے اے کا بنگلہ دیش پر کوئی اثر نہیں پڑے‌گا۔

ڈی دبلیو اردو کی ایک خبر کے مطابق، اس سے قبل مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے دہلی کے فسادات کی سخت الفاظ مذمت کی تھی اور اس نے اس کے لیے سخت گیر ہندو تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ او آئی سی نے اپنے بیان میں کہا تھا، او آئی سی ہندوستان  میں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور حکام سے  مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ ہندوستان  کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے جان و مال کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔

قابل ذکر ہے کہ  نئی دہلی میں 23 فروری کی شام کو فسادات شروع ہوئے تھے جس پر اب قابو پا لیاگيا ہے تاہم متعدد علاقوں میں اب بھی حالات کشیدہ ہیں۔ ان فسادات میں اب تک کم سے کم 47 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں سے بیشتر مسلمان ہیں۔ تین سو کے قریب افراد اب بھی زخمی ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کو گولی لگی ہے۔

درجنوں دکانیں، مکانات اور کاروباری ادارے جل کر راکھ ہوگئے ہیں جبکہ سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ فسادات کے سبب ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں عام لوگوں کی شکایت یہ ہے کہ پولیس نے وقت پر کارروائی نہیں کی ورنہ جان مال کا نقصان اس بڑے پیمانے پر نہیں ہوتا۔

اس وقت ہزاروں متاثرہ افراد جن کا سب کچھ لوٹ لیا گيا اور مکانات جلا دیے گئے وہ سب ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ کئی غیر سرکاری تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں جبکہ بہت سے رضاکار ایسے لوگوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنے میں لگے ہیں۔