فکر و نظر

دہلی تشدد کے دوران سرکاری طبی خدمات کا تھا برا حال، حکومت خاموش تماشائی بنی رہی: رپورٹ

جن سواستھ ابھیان نامی ادارے کی طرف سے جاری ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق دہلی تشدد کے دوران حکومت متاثرین کو مناسب علاج مہیا کرانے میں ناکام رہی اور کئی جگہوں پر مریضوں کو امتیازی سلوک اور استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔

اولڈ مصطفیٰ آباد کے الہند اسپتال میں ایک مریض(فوٹو : رائٹرس)

اولڈ مصطفیٰ آباد کے الہند اسپتال میں ایک مریض(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: شمال مشرقی دہلی کے کئی پرتشدد علاقوں کا دورہ کر چکے شہری حقوق اور صحت کارکنان نے تشدد کے دوران جان اور مال کے نقصان  کو روکنے میں ناکام رہنے پر مرکز اور دہلی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔اس بارے میں ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ تشدد کے دوران اور بعد میں جس وقت زخمیوں کو میڈیکل علاج کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، اس وقت سرکاری طبی خدمات کی رفتار دھیمی تھی یا ٹھپ پڑی ہوئی تھیں۔

جن سواستھ ابھیان (جے ایس اے) نام کے ایک ادارے نے سوموار کو پریس کلب میں ‘ دی رول آف ہیلتھ سسٹمس ان رسپونڈنگ ٹو کمیونل وائلنس ان دہلی ‘ نام کی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دہلی حکومت متاثرین کو مناسب علاج مہیا کرانے میں ناکام رہی۔

اس رپورٹ میں زخمیوں کو مناسب علاج مہیا کرانے میں سرکاری اسپتالوں  کے قانونی، اخلاقی اور آئینی فرائض کی سنگین خلاف ورزی کے معاملے کو اجاگر کیا گیا ہے۔رپورٹ 24 فروری 2020 کو تشدد بھڑکنے سے لےکر اب تک شمال مشرقی دہلی کے کئی فساد ات متاثرہ علاقوں میں سرکاری صحت خدمات کی جانچ کرتی ہے اور انتظامیہ کی ناکامی بتاتی ہے۔ جے ایس اے کے والنٹیرس 25 فروری سے فساد متاثرہ علاقوں میں بنے رہے اور انہوں نے متاثرین اور ان کی فیملی والوں سے بات چیت کرکے ان کے تجربات کو اکٹھا کیا۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کے دوران اور بعد میں متاثرین کو صحت خدمات تک پہنچ بنانے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق ، ‘تشدد کے دوران اور اس کے بعد ذہنی اور جسمانی تکلیفوں کے شکار افراد کے لئے خستہ حالت سرکاری طبی خدمات ایک اور ٹراما بن گئی ۔ ‘اس میں کہا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی کے جی ٹی بی ہاسپٹل اور سینٹرل دہلی کے ایل این جے پی ہاسپٹل میں بھرتی زخمیوں کو مناسب علاج مہیا نہیں کرایا گیا۔

جے ایس اے کے ممبر عنایت سنگھ نے دی وائر کو بتایا، ‘ ان دونوں ہاسپٹل میں سب سے پہلے زخمیوں کو لایا گیا لیکن زیادہ تر متاثرین کو بڑی مشکل سے میڈیکل سہولیات  مل پائی۔ انتظامیہ کی غیر فعالیت کے درمیان چیریٹبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ لگاتار زخمیوں کی مدد کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ جن  ہاسپٹل میں زخمی بھرتی ہیں، وہاں کا ہاسپٹل انتظامیہ زخمیوں اور ان کی فیملی کی مدد کرنے کے بجائے پلہ جھاڑتا دکھا، ان کو ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ بھٹکاتا رہا۔ ‘

انہوں نے آگے بتایا، ‘ یہاں تک کہ فیملی کے لاپتہ ممبروں اور دوستوں کو ڈھونڈنے کے لئے ہاسپٹل آ رہے لوگوں کی مدد کرنے میں بھی ہاسپٹل کنی کاٹتے دکھے۔ کئی زخمیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہاسپٹل کے میڈیکل اسٹاف نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ میڈیکل اسٹاف نے زخمیوں پر قابل اعتراض اور فرقہ وارانہ تبصرہ کیا۔ ‘

وہ کہتی ہیں، ‘ ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں، جس میں جی ٹی بی اور ایل این جے پی جیسے سرکاری اسپتالوں میں بھرتی زخمیوں کو پولیس اہلکار ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ کئی ایسی رپورٹس ہیں، جن سے پتہ چلا کہ تشدد میں صاف طور پر پولیس کا کردار رہا۔ زخمیوں کے متعلق پولیس کے خراب رویے کی وجہ سے زخمی ہاسپٹل جانے سے بھی بچتے رہے۔ ہمیں کئی لوگوں نے بتایا کہ علاج کے لئے ہاسپٹل جا رہے لوگوں سے پولیس الٹے سیدھے سوال پوچھ‌کر ان کو ہی فسادی بتانے پر تلی ہوئی ہے اس لئے کافی لوگ ہاسپٹل جانے سے بھی کترا رہے ہیں۔ ‘

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

عنایت نے کہا، ‘ مناسب طبی سہولیات  مہیا نہیں ہونے کی ایک عام وجہ میڈیکو لیگل کیس (ایم ایل سی) نمبر کا نہیں ہونا ہے۔ کئی مریضوں کو اسپتالوں  نے ایم ایل سی نمبر یا ٹریٹ منٹ ریکارڈ نہیں دیے ہیں۔ اگر وہ مناسب علاج کے لئے ایک سے دوسرے ہاسپٹل  جانا چاہتے ہیں تو ان سے کہا جا رہا ہے کہ ان کو تب تک ایڈمٹ نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ وہ پچھلے ہاسپٹل سے ایم ایل سی نمبر مہیا نہیں کراتے۔ ‘

عنایت کہتی ہیں، ‘ چیریٹبل اور پرائیویٹ ہاسپٹل  میں کسی طرح کا مفت علاج نہیں تھا جبکہ دہلی حکومت پہلے ہی پرائیویٹ ہاسپٹل میں فساد متاثرین کے مفت علاج کے لئے ‘ فرشتے اسکیم ‘ کا اعلان کر چکی ہے۔ زخمیوں کا جلدبازی میں علاج کیا گیا اور ایسی  کئی مثال ہیں، جن سے پتہ  چلتا ہے کہ شدید چوٹوں کا بھی صحیح سے علاج نہیں کیا گیا۔ ‘

رپورٹ بتاتی ہے کہ پولیس لگاتار علاج کے دوران مداخلت کرتی رہی۔ ایل این جے پی ہاسپٹل میں پولیس ہاسپٹل کے اندر تھی اور زخمیوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ کہیں اور جاکر علاج کرائیں۔ زخمی 102 نمبر ڈائل کر رہے تھے لیکن ان کو اس سے بھی کوئی مدد نہی ملی۔

تشدد کے دوران لگاتار متاثرہ  علاقوں میں راحت پروگرام چلا رہے پروگریسو میڈکوز اینڈ سائنٹسٹس فورم (پی ایم ایس ایف) کے صدر ڈاکٹر ہرجیت سنگھ بھٹی بتاتے ہیں کہ تشدد کے دوران ایمبولینس اور ڈاکٹروں کو متاثرین تک پہنچنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، خاص طورپر مسلم اکثریتی علاقوں میں متاثرین کے پاس ایمبولینس کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔

پہلے ایمس کے ساتھ کام کر چکے بھٹی کہتے ہیں کہ پولیس بھی لگاتار ایمبولینس روک رہی تھی، جس سے ان کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔وہ بتاتے ہیں، ‘ مجھے یاد ہے کہ ہماری ایمبولینس میں ایک زخمی تھا، جس کو گولی لگی تھی اور ہم اس کو جی ٹی بی ہاسپٹل لےکر جا رہے تھے لیکن پولیس نے ہماری ایمبولینس کو چاربار روکا اور اس زخمی کا بینڈیج اور پٹیاں اتار‌کر چیک کیا کہ گولی لگی بھی ہے یا نہیں۔ ‘

بھٹی کہتے ہیں کہ 25 فروری کی دوپہر گولی لگنے سے زخمی ہوئے کئی متاثرین کو الہند اسپتال لے جایا گیا لیکن بھیڑ کے ذریعے ایمبولینس اور ڈاکٹروں کو روکے جانے کی وجہ سے 12 گھنٹے سے زیادہ کی تاخیرسے ہی ان کو مناسب علاج مل پایا۔ ہم نے پایا کہ اوکھلا میں الشفا ہاسپٹل میں کئی متاثرین کو مناسب علاج نہیں ملا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس تشدد نے ہندوستان کی خستہ حالت ہیلتھ سسٹم  کو اجاگر کر دیا ہے۔

اولڈ مصطفیٰ آباد کا الہند اسپتال (فوٹو : رائٹرس)

اولڈ مصطفیٰ آباد کا الہند اسپتال (فوٹو : رائٹرس)

شہری حقوق کارکن انجلی بھاردواج بھی اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنیچر کو دیگر کارکنوں  کے ساتھ تشدد متاثرہ  علاقوں کا دورہ کیا تھا۔انجلی کہتی ہیں، ‘ ہم بھجن پورہ  گئے، جہاں ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں  کے گھر جلا دئے گئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ابھی ان تک کوئی نہیں پہنچا ہے۔ ان کو دہلی حکومت کے ذریعے اعلان کئے گئے معاوضے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ‘

وہ کہتی ہیں کہ ایک بہت ہی خوف ناک پہلو یہ نکل‌کر سامنے آیا کہ جب ہم نے متاثرین سے پوچھا کہ کیا انہوں نے معاوضے کے فارم بھر دیے ہیں تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے فارم نہیں بھرے ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ فارم بھرنے کے لئے ان کی نجی جانکاریوں کو این پی آر کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انجلی کہتی ہیں، ‘ دہلی حکومت کو جلد سے جلد ان بےگھر لوگوں  کی بازآبادکاری  کرنی چاہیے۔ شیو وہار میں اپنے گھر جل جانے کی وجہ سے تقریباً 1000 لوگ چمن پارک میں منتقل ہوئے ہیں۔ ‘رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہلی حکومت کے افسروں اور عوامی نمائندوں کو متاثرہ  علاقوں میں جاکر عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی کرنے اور معاوضہ کے عمل کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ رہیں نیشنل فیڈریشن آف انڈیا وومین کی صدر اینی راجا نے بتایا کہ تشددمتاثرہ  علاقے کے دورے کے دوران ہم نے پایا کہ جن  دکانوں پر جئے شری رام لکھا تھا، ان کو بالکل بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔

سماجی کارکن اور قلمکار ہرش مندر بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ انہوں نے بتایا، ‘ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ لوگوں میں انتظامیہ کو لےکر عدم تحفظ کا احساس ہے، لوگوں نے اب حکومت اور  پولیس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کچھ لوگوں سے ہماری بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ ان کے گھروں کے ساتھ ان کے سارے کاغذات جل گئے ہیں۔ اس لئے وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان سے معاوضہ فارم بھرنے کو کہا تو انہوں نے بھرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ ہے کہ معاوضہ فارم بھرنے کے لئے ان کو اپنی ڈٹیلس دینی ہونی، جو وہ دینا نہیں چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ این پی آر میں اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراول نگر، بھجن پورہ، موج پور، کردم پوری، جعفر آباد، چاندباغ، شیوپوری، برج پوری اور کھجوری خاص جیسے علاقوں میں جہاں گزشتہ اتوار کو تشدد بھڑکا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر علاقوں میں کوئی محلہ کلینک نہیں تھا اور کئی علاقوں میں پرائمری ہیلتھ سینٹر  بھی نہیں تھے۔

اس دوران ایک کارکن پونم کوشک نے کہا، ‘ دہلی حکومت گراؤنڈ پر نہیں صرف اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کیجریوال نے ایل جی  پر فائلیں روکنے کا الزام لگایا تھا لیکن تشددمتاثرہ علاقوں میں راحت پہنچانے کو لےکر ایل جی کوئی فائل نہیں روک رہے ہیں تو ایسے میں حکومت کے نمائندے کہاں ہیں؟ ‘