خبریں

کرناٹک اسکول معاملہ: عدالت نے کہا -سی اے اے مخالف ڈرامہ سیڈیشن نہیں، سبھی ملزمین کو ضمانت

بیدر کی ضلع عدالت نے اسکول انتظامیہ کے پانچ لوگوں کو پیشگی ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسکولی بچوں کے ذریعے کھیلا گیا ڈرامہ سماج میں کسی بھی طرح کا تشدد یا بے یقینی کا ماحول  پیدا نہیں کرتا اور پہلی نظر میں سیڈیشن کا معاملہ نہیں بنتا۔

شاہین اسکول میں بچوں سے پوچھ تاچھ کرتی پولیس (فوٹو : ویڈیو گریب)

شاہین اسکول میں بچوں سے پوچھ تاچھ کرتی پولیس (فوٹو : ویڈیو گریب)

نئی دہلی: کرناٹک کے بیدر کی ایک ضلع عدالت نے سی اے اے مخالف ڈرامہ کرنے کو لےکر درج ہوئے سیڈیشن کے معاملے میں شاہین اسکول کے مینجر سمیت کئی لوگوں کو پیشگی ضمانت دے دی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے کہا کہ پہلی نظر میں سیڈیشن کا معاملہ نہیں بنتا ہے اور اس کو لےکر ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

عدالت نے یہ کہتے ہوئے نمائندوں کو پیشگی ضمانت دی کہ سی اے اے کے خلاف اسکول کے بچّوں کے ذریعے کھیلا گیا ڈرامہ سماج میں کسی بھی طرح کا تشدد یا  بے یقینی کا ماحول  پیدا نہیں کرتا ۔معلوم ہو کہ اس ڈرامہ کی وجہ سے اسکول کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی اور ان پر سیڈیشن کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضلع عدالت کے جج ایم پریم وتی نے اپنے حکم میں کہا، ‘ بچوں نے صرف یہ ظاہر کیا ہے کہ اگر وہ کاغذ نہیں دکھاتے تو ان کو ملک چھوڑنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ دکھے کہ انہوں نے سیڈیشن جیسا کوئی جرم کیا ہو۔ ‘عدالت نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشن کے صدر عبدالقادر (60) اور اسکول کے ہیڈ ماسٹر علاءالدین (40) اور اسکول انتظامیہ کمیٹی کے تین ممبروں کو دو-دو لاکھ روپے کے نجی بانڈ کے ساتھ ضمانت دی۔

مقامی صحافی محمد یوسف رحیم نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ڈرامہ نشر کیا تھا۔ ان کو بھی پیشگی ضمانت دی گئی ہے۔یہ معاملہ 26 جنوری کو بی جے پی کے مقامی کارکن نیلیش رکشیال کی شکایت پر درج کیا گیا تھا، جنہوں نے رحیم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے یہ ڈرامہ دیکھا تھا۔منگل کو عدالت کے ساتھ سیڈیشن  کے معاملے کے سبھی ملزمین کو ضمانت دے دی گئی ہے۔ اس سے پہلے شاہین پرائمری اور ہائی اسکول کی ڈائریکٹر فریدہ بیگم اور ایک طالب علم کی ماں نجب النسا کو ضمانت دے دی گئی تھی۔

ضلع چیف اور سیشن جج نے نجب النسا اور فریدہ بیگم کو ایک لاکھ روپے کے نجی بانڈ پر ضمانت دی گئی تھی۔اپنے حکم میں ضلع جج پریم وتی نے کہا، ‘ جانکاری اور دیگر دستاویزوں کے  تجزیے کے بعد پایا گیا ہے کہ فنکاروں نے وزیر اعظم مودی کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا ہے اور انہوں نے وزیر اعظم کے خلاف چپل کا استعمال کیا ہے۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘ یہ پایا گیا ہے کہ ڈرامہ کے ذریعے انہوں نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج  کیا تھا اور ڈرامہ اسکول کی تقریب میں پیش کیا گیا تھا لیکن مکالمہ اگر پوری طرح سے پڑھا جائے تو کہیں بھی حکومت کے خلاف سیڈیشن کا کوئی مقدمہ نہیں بنتا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر صرف استغاثہ کے ذریعے نکالا ہوا حصہ دیکھیں تو وہ قابل اعتراض ہے، ‘ لیکن اگر ڈائیلاگ کو پورا پڑھا جائے  تو کہیں بھی حکومت کے خلاف نہیں ہے اور پہلی نظر میں آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کے تحت سیڈیشن نہیں ہے۔ ‘

جج نے کہا، ‘ میرے خیال سے یہ ڈائیلاگ نفرت، بے عزتی اور حکومت کے متعلق کوئی عدم اتفاق ظاہر نہیں کرتا۔ ‘ انہوں نے آگے کہا کہ ملک بھر میں سی اے اے-این آر سی کے خلاف اور حمایت میں ریلی اور مظاہرے ہو رہے ہیں اور ہر شہری کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کے طریقوں پر عدم اتفاق ظاہر کرنے کا حق ہے۔

عدالت نے آگے یہ بھی کہا، ‘ اگر اس کو فیس بک پر اپلوڈ نہیں کیا گیا ہوتا تو عوام کو کبھی اس ڈرامہ کے مکالمہ کے بارے میں پتہ  ہی نہیں چلتا۔ اس ڈرامہ سے سماج میں کسی بھی قسم کی بے یقینی کا ماحول  پیدا نہیں ہوا ہے۔ ‘عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 504 (بد امنی پھیلانےکے ارادے سے جان بوجھ کر بے عزتی کرنا) لگانے کے لئے خود وزیر اعظم مودی کو اس ڈرامہ کے مکالمہ کے بارے میں شکایت کرنی ہوگی۔