فکر و نظر

یس بینک کے ذریعہ دیے گئے قرض میں 80 فیصد اضافے کا فائدہ کس کو ملا؟

یس بینک کے ذریعہ دیے گئے کل قرض میں مالی سال 2017 سے 2019 کےدرمیان 132000 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ بینک نے اپنے قیام کے بعد 17 سالوں میں جتنا قرض دیا تھا، تقریباً اتنا ان دو سالوں میں دیا گیا۔ وہ کارپوریٹ قرض دار کون تھے، جن کو پرائیویٹ سیکٹرکے اس بینک نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعدکے دو سالوں میں بنا کچھ سوچے-سمجھے اتنا قرض دیا؟

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

ایک سادہ سے  سوال کے جواب سے یس بینک کے چرمرانے میں چھپے گھوٹالےکی تہیں اپنےآپ کھل جائیں‌گی۔سوال ہے کہ آخر کیسے یس بینک کے ذریعے دئے گئے کل قرض میں مارچ،2017 سے 31 مارچ 2019 کے درمیان 80 فیصد کا اضافہ ہو گیا، جبکہ معیشت بدحال تھی، قرض کی مانگ غیر معمولی طور پر نچلی سطح پر تھی اور نجی  سرمایہ کاری کے پٹری پر لوٹنے کا کہیں کوئی اشارہ نہیں تھا۔

یس بینک کے ذریعے دیا گیا کل قرض مالی سال 2017 سے مالی سال 2019کے درمیان 132000 کروڑ روپے سے بڑھ‌کر 241000 کروڑ روپے کاہو گیا۔یہ محض دو سالوں میں، جب زیادہ تر بینکوں کے لئے قرض دینا مشکل ہورہا تھا، 109000 کروڑ یا 80 فیصد کا اضافہ ہے۔محض دو سالوں میں یس بینک کے ذریعے دیا گیا قرض دو گنا ہو گیا۔ یس بینک نے اپنے قیام کے بعد 17 سالوں میں جتنا قرض دیا تھا، تقریباً اتنا ہی قرض اس نے ان دو سالوں میں دے دیا۔

وہ کارپوریٹ قرض دار کون تھے، جن کو پرائیویٹ سیکٹر کے اس بینک نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعدکے دو سالوں میں اتنا جم کر اور بنا کچھ سوچے-سمجھے قرض دیا، جبکہ سرمایہ کاری کا ماحول اتنا تاریک نظر آ رہا تھا کہ کوئی بھی اچھی کمپنی نئی سرمایہ کاری کے لئے قرض نہیں مانگ رہی تھی؟سرمایہ کاری کے قحط کے دور میں دئے گئے قرض میں ایسا اضافہ غیرمعمولی ہے۔ اس لئے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ یس بینک کے ذریعے دئے گئے قرض میں ہوئے 80فیصد کے اضافہ کا فائدہ کن کارپوریٹ قرض داروں کو ملا؟

دوسرا، اور شاید زیادہ دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا ان کمپنیوں(قرض لینے والی)نے نئی سرمایہ کاری کی یا پھر انہوں نے یس بینک کے پیسے کا استعمال دوسرے بینکوں سے لئے گئے پرانے قرضوں کو این پی اے میں بدلنے سے روکنے کے لئے کیا؟

اچھا ہوتا کہ بجائے یو پی اے حکومت پر اس بحران کا ٹھیکرا پھوڑنےکے وزیر خزانہ نرملا سیتارمن ان سوالوں کا جواب دیتیں۔

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن(فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن(فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر خزانہ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ آخر کیسے این ڈی اے حکومت کےپانچ سالوں کے دوران بینک کے ذریعے دئے گئے قرض میں تقریباً 400 فیصد کے-مالی سال2014 میں 55000 کروڑ سے سے مالی سال 2019 تک 241000 تک-اضافہ ہو گیا؟سوال ہے کہ جب دوسرے بینکوں کو قرض دینا مشکل ہو رہا تھا، یس بینک کیسے کھلے ہاتھوں سے قرض بانٹ رہا تھا؟ اس سوال کے جواب میں گھوٹالہ کی پوری کہانی چھپی ہے۔

مختلف ایجنسیوں کے ذریعے مجموعی طورپر اس کی سنجیدگی سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعہ کی رات کو ای ڈی کے ذریعے بینک کےسابق پروموٹر رانا کپور، جن کا بینک کے کام میں کافی دخل تھا، کے گھر پر مارے گئےعلامتی  چھاپے سے کام نہیں چلنے والا ہے۔میری سمجھ یہ کہتی ہے کہ یس بینک کے ذریعے دئے گئے غیر معمولی طورپر بڑے قرض پہلے سے ہی بحران زدہ کارپوریٹ گروپوں کو بانٹے گئے، جن میں سے کچھ کاذکر جمعہ کو وزیر خزانہ کے ذریعے خاص طور پر کیا گیا۔

ان کمپنیوں نے پہلے ہی پبلک  بینکنگ سسٹم کو چونا لگایا تھا اوران پر قرض کا بھاری بوجھ تھا، جس کی ادائیگی کر پانا ان کے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ان کمپنیوں نے اپنے رسوخ کا استعمال کرکے انتظامیہ کی آنکھوں میں اور دھول جھونکتے ہوئے نئے بینک قرضوں کا استعمال پرانے قرضوں کو این پی اے ہونے سے روکنے کے لئے کیا۔ یہ ‘ صنعتی ‘ سطح پر انجام دئے جا رہے کسی پونجی اسکیم گھوٹالہ کی طرح تھا۔

ہو سکتا ہے کہ یس بینک اس بڑے پونجی اسکیم گھوٹالہ کا ایک پیادہ بن گیا ہو، جس میں دیوان ہاؤسنگ اور شاید دوسری بڑی غیر-بینکنگ مالی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔اس بارے میں کے پی ایم جی اور پرائیسوارٹرہاؤس کوپر کی فارینسک آڈٹرپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے غیر بینکنگ مالی کمپنیاں شیل کمپنیوں کے ذریعے ویسےکارپوریٹ گروپوں کو پیسہ مہیا کرا تی تھیں جن کے لئے اپنے قرض کی ادائیگی کرنامشکل ہو رہا تھا۔

کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد کےکل قرض اضافہ میں یس بینک اور ان غیر بینکنگ مالی کمپنیوں کی شراکت تقریبا 80 فیصدتھی۔ایسا لگتا ہے کہ اس دوران وزارت خزانہ اور ریزرو بینک آف انڈیاچادر تان‌کر سو رہا تھا۔ نرملا سیتارمن چاہیں جو بھی کہیں، وہ اس کا قصور یو پی اےکو نہیں دے سکتی ہیں۔تو اب اچانک ہمارے سامنے ایک ایسی حالت ہے جس میں پچھلے تین-چارسالوں میں دئے گئے قرض بڑے این پی اے میں بدل رہے ہیں۔ یہ قرض ان پرانے قرضوں کوسنبھالنے کے لئے دئے گئے تھے، جو پہلے سے ڈوبنے کے راستے پر تھے۔

اچھا پیسہ، ریئل اسٹیٹ اور بنیادی ڈھانچے کےاٹکے ہوئے منصوبوں میں پھنسے ہوئے ڈوبتے ہوئے پیسے پر لٹایا جا رہا تھا۔اسی کو مودی حکومت کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزر ارویند سبرامنیم نے’ دو-دو جڑواں بیلینس شیٹ مسئلہ’ (ٹوئن پلس ٹوئن بیلینس شیٹ پرابلم) کہا تھا۔پہلا جڑواں بیلینس شیٹ مسئلہ-جب بڑے ڈوبتے قرض نے کارپوریٹ اوربینک دونوں کے بہی کھاتے کو متاثر کیا-یو پی اے کی مدت کار کے دوران سامنے آیا۔جبکہ دوسرا جڑواں بیلینس شیٹ مسئلہ-جو یس بینک کے 60000 کروڑ کا بحران زدہ اثاثہ میں دکھائی دیتا ہے-پوری طرح سے این ڈی اے دورحکومت میں سامنے آیا۔

یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ آر بی آئی بھی ڈوبنے والی غیر بینکنگ مالی کمپنیوں کے اثاثہ کے معیار (کوالٹی آف ایسیٹس) کی تشخیص ایماندارانہ  طریقے سے کرکے سچ کا پتہ لگانے کی جرأت نہیں کر پائی ہے۔یس بینک کے ذریعے آخری بار جاری کئے گئے سہ ماہی کے اعداد و شمارمیں (جولائی-ستمبر 2019) بینک کا کل این پی اے کل قرض کا 5-6 فیصد دکھایا گیا تھا۔لیکن اصل میں یہ قریب 30 فیصد یا اس سے زیادہ ہے کیونکہ پچھلی چار سہ ماہی میں معیشت کی حالت اور خراب ہوئی ہے۔

حکومت کو سب سے پہلے مسئلہ کو قبول کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ ضروری حل نکال سکتی ہے۔یس بینک کے چرمرانے اور اس کے حصول کی خبر اس سے خراب وقت پر نہیں آ سکتی تھی، کیونکہ کورونا وائرس کے چلتے عالمی ترقی میں ایک فیصدپوائنٹ کمی آنے کاخطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ایسی گھڑی سے مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط مالی انتظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھا ہوتا کہ وزیر خزانہ تمام مسائل کا ٹھیکرا حزب مخالف پر پھوڑنے کی جگہ لوگوں میں اعتماد بحال کرتیں۔

جمعہ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اکانومک ٹائمس کے گلوبل سمٹ میں کہا کہ ‘ ہم ایمانداروں کے ساتھ کھڑے ہوں‌گے اور بدعنوانوں کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آئیں‌گے۔ ‘یہ ایک دوسری بات ہے کہ یس بینک اس کانفرنس کے اہم منتظمین میں سےایک تھا۔ مگر، ایسے المیہ کے ساتھ جینا ہماری مجبوری ہے۔