خبریں

کشمیر میں صرف انٹرنیٹ نہیں، کشمیریوں کی زندگی کے کئی دروازے بند تھے

گزشتہ 5 مارچ کو سات مہینے کے بعد جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ سے پابندی ہٹائی گئی ہے۔ ایک طبقے کا ماننا تھا کہ یہ پابندی  امن امان کی بحالی کے لئے ضروری تھی ، حالانکہ مقامی لوگوں کے مطابق یہ پابندی تفریح یا سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ عوام کے جاننے اور بولنے پرتھی۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

گزشتہ 5 مارچ 2020 کی شام اچانک فون پر ڈھیروں پیغامات آنے لگے۔ وہاٹس ایپ اور فیس بک اپ ڈیٹ آنے پر آواز کیسی ہوتی ہے یہ لمبےعرصے بعد یاد آیا۔فون اٹھاکر دیکھا تو ایک بڑی راحت محسوس ہوئی۔ کشمیر میں انٹرنیٹ لوٹ آیاتھا۔ لیکن پھر لگا کہ یہ حکومت کی طرف سے صرف کچھ دیر کی ڈھیل ہو سکتی ہے، اس لئےجلدی جلدی اپنی فیملی اور دوستوں کو ویڈیو کال لگانی شروع کر دی۔

انہوں نے بھی ہمارے چہرے کافی دنوں بعد دیکھے تھے، سو سب سے پہلا سوال یہی پوچھا-چل گیا انٹرنیٹ؟ جی ہاں، کشمیر وادی میں پورے سات مہینے بعد لوٹا ہےانٹرنیٹ۔ہم پوری رات فون کی روشنی میں سوشل میڈیا پر آنکھیں گڑائے رہے۔ دیکھناچاہتے تھے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ لوگوں نے دہلی کے فسادات کے بارے میں کیا کہا،کیا لکھا اور اس دوران کون کہاں تھا۔سوشل میڈیا پر سب کچھ تھا-پیار، نفرت، طعنہ، بے عزتی، بھائی چارہ بھی،لیکن ہم نہیں تھے کیونکہ ہم کشمیر میں ہیں۔

پچھلے ایک مہینے میں 2جی کے ساتھ انٹرنیٹ ٹکڑوں میں ملناشروع ہوا تھا۔ اس کو پوری طرح پاکر کئی گھنٹے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اب کیا کرڈالیں، اس کا عادی ہونے میں کچھ دن لگ گئے۔4جی کنیکشن والے فون اور 24 گھنٹے وائی فائی سے جڑے لیپ ٹاپ اگر آپ کی زندگی کا حصہ ہیں تو آپ شاید ہی سمجھ پائیں کہ انٹرنیٹ کے بغیر ایک پوری آبادی کی معمولات زندگی آپ سے بالکل الگ ہوتی ہے۔

کشمیر کے لئے یہ سات مہینے کالے پانی کی سزا جیسے رہے ہیں۔ اس بات کومضحکہ خیز ماننے والا بھی ایک بڑا طبقہ ہے کیونکہ کئی شہری لوگوں کے مطابق انٹرنیٹ بنیادی طور پر صرف وہاٹس ایپ پر چیٹنگ کے کام آتا ہے یا پھر یہ وقت گزارنے کے لئے ٹک-ٹاک اور فیس بک پر چپکے رہنے کا دوسرا نام ہے۔ایک محترم کے مطابق تو کشمیری عوام انٹرنیٹ کا استعمال صرف فحش فلمیں یکھنے کے لئے کرتے  ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ میڈیا کے بڑے حصے نے بھی اس کو کشمیراور ہندوستان کے لئے صحیح ٹھہرایا۔

ان کے مطابق کشمیر میں سوشل میڈیا نہ ہونا امن و امان کی بحالی  کے لئے ضروری  ہے۔ یہ وہی انڈسٹری ہے جو انٹرنیٹ کے بغیر شاید ایک دن بھی اپنا کام نہ کر پائے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کا پیشہ ہی آواز اٹھانا ہے، لیکن وہ لاکھوں لوگوں کی زبان بند کرنے کی پیروی کرتے ہیں۔بنا انٹرنیٹ زندگی کیسے الگ ہوتی ہے، اس کی شروعات ہم بچوں سے کرتے ہیں۔مارچ کا مہینہ ہے اور ملک بھر میں زیادہ تر ماں باپ اس وقت اپنے اسکولی بچوں کےفائنل امتحانات کے تناؤ سے جوجھتے ہیں۔

ایسے میں بچوں کی ٹی وی دیکھنے، گھومنے-پھرنے اور ہر طرح کی تفریحات پرپابندیاں لگنے لگتی ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہندوستان کے باقی حصوں کی طرح کشمیر وادی میں نہ تو شاپنگ مالس ہیں اور نہ سنیما گھر۔دہلی اور ممبئی کی طرح چار قدم پر کرکٹ یا فٹ بال اکادمیاں نہیں ہیں، نہ ہی کوکنگ، میوزک اور غیر ملکی زباوں کی کلاسز عام ہیں۔ایسے میں مڈل کلاس یا اعلیٰ طبقہ کی فیملی کے بچوں اور نوجوانوں کی زندگی صرف اسکول اور کالج کی پڑھائی کے ارد-گرد سمٹ‌کر رہ جاتی ہے۔

اسکول کے مارکس یا کالج کی ڈگری ہی بہتر زندگی کا راستہ تیار کر سکتی ہے۔اس کا ثبوت ہے یہاں کوچنگ اور ٹیوشن سینٹرس کی بڑی تعداد، جو بچوں کی بہتر پڑھائی اور روشن مستقبل کا وعدہ کرتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس کوچنگ سینٹرس میں سے بہت سے آن لائن کلاسز پر زوردیتے ہیں، جن کے ذریعے بچے دہلی اور ممبئی میں موجود ٹیچرس سے جڑے رہتے ہیں۔مائنس پانچ درجۂ حرارت میں یہ بچے انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے اپنے نصاب  کا بڑاحصہ کور کر لیتے ہیں۔

لہذا اس سال کشمیر کے بچوں سے ان کی پڑھائی کا ایک بڑا ذریعہ چھن گیا۔کیا واقعی یہ بچے ملک بھر‌کے باقی بچوں سے کچھ کم کے حق دار ہیں؟دوسرا بڑا سوال ہے روزی-روٹی کا۔ دسمبر میں آئی کشمیر چیمبر اور کامرس اینڈ انڈسٹری کی رپورٹ کے مطابق اس دوران یہاں کے کاروبار کو 18 ہزار کروڑروپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور تقریباً پانچ لاکھ لوگ بےروزگار ہوئے۔وادی میں تقریباً پچیس ہزار لوگوں کو روزگار دینے والی 500 کروڑ کی آئ یٹی انڈسٹری کو سب سے بڑا دھکا لگا جس کے بعد ہزاروں لوگوں کو اپنی نوکری ا گنوانی پڑیں۔

شروعاتی 120 دن میں ہی سیاحت میں 74500 اور نقاشی میں 70000 لوگ بےروزگار ہوئے۔ دونوں ہی میں انٹرنیٹ کا کردار سب سے اہم ہے۔ اس سب کےعلاوہ چھوٹے پورٹلس اور اسٹارٹ اپس کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں جٹےنوجوانوں کے خواب چکناچور ہو گئے۔بیماروں  کے لئے یہ پابندی بھلانا شاید ممکن نہیں ہوگا۔ سرینگر کے سرکاری ہسپتالوں میں کئی اسکیم اور خدمات پہنچانا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس کے لئے ڈاکٹروں کو ڈیجیٹل ایکسیس کی ضرورت تھی۔

جو لوگ دوسرے شہروں کے ڈاکٹرس سے مشورہ لینا یا پھر دوائیاں آرڈر کرناچاہتے تھے ان کے لئے محض ایک ای میل زندگی اور موت کے درمیان کا پل ثابت ہو رہی تھی۔یہ امن و امان کی بحالی نہیں لوگوں کو موت کی طرف دھکیلنے کا انتظام تھا۔ ہندوستان کاشہری ہونے کے ناطے سوچ‌کر دیکھیے کہ صرف دہلی میں ماحولیات کے لئے لگنے والے آڈ-ایون کے اصول سے آپ کتنے پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ تو جب روزی، صحت خدمت، تعلیم، سب کچھ کئی گنا مشکل ہو جائے‌گا تو کیسا محسوس کرتے ہیں لوگ!

سرینگر کے ایک میڈیا سینٹر میں کام کرتے صحافی۔ (فوٹو : رائٹرس)

سرینگر کے ایک میڈیا سینٹر میں کام کرتے صحافی۔ (فوٹو : رائٹرس)

کیا ان کو ٹک-ٹاک یا فحش فلمیں  دیکھنے کا ہوش بھی ہوگا؟ گوگل سرچ کرنے پرپتہ چلتا ہے کہ جموں و کشمیر میں کل ملاکر 370 اخبارار اور رسائل ہیں۔انٹرنیٹ بین نے کتنے صحافیوں کی نوکریاں چھین لیں اس کی کوئی رسمی تعداد نہیں ہے۔سرینگر میں اگر آپ اپنی صبح کی چائے کے ساتھ ٹائمس آف انڈیا جیسا اخبارپڑھنا چاہیں تو اس کے لئے آپ کو 24 گھنٹے انتظار کرنا ہوگا کیونکہ یہ اخبار یہاں تک اگلے دن ہی پہنچ پاتے ہیں۔

سات مہینوں میں سوشل میڈیا سے دور رہنے کے ساتھ-ساتھ مجھے ‘ کل ‘ کا اخبارپڑھنے کی عادت بھی پڑ گئی۔دنیا بھر میں کسی جمہوری‎ ملک میں لگا یہ اب تک کے سب سے لمبا انٹرنیٹ بین تھا۔ یہ بین تفریح یا وہاٹس ایپ پر نہیں، عام زندگی اور روزگار پر تھا، جاننے اوربولنے پر تھا۔ایک طرف جہاں باقی ہندوستان میں انٹرنیٹ آپ کی ہر خواہش کو ممکن کر رہا تھا،چاہے سوشل میڈیا ہو، آن لائن شاپنگ ہو یا نیٹ فلکس پر اپنی پسند کی فلم، وہیں کشمیرکو اپنی زبان کے ساتھ-ساتھ زندگی کے کئی دروازوں پر تالے لگانے پڑے۔

(افشاں انجم سینئر ٹی وی جرنلسٹ ہیں۔ )