فکر و نظر

افغانستان: بل رچرڈسن اور زلمے خیل زاد کے سفارتی مشن

اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ  چند ہفتے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پائی گئی ڈیل اور 22سال قبل کابل میں رچرڈسن کے معاہدے کے مندرجات میں شاید ہی کوئی فرق ہے۔مگر اس معاہدہ پر عمل درآمد نہ کرنے اور لیت و لعل کی وجہ سے خطے میں قتل و غارت گری کا ایک ایسا بازار گرم ہوگیاکہ چنگیز خاں و ہلاکو خان کی روحیں بھی تڑپ رہی ہوں گی۔

فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

17اپریل 1998کی ایک خنک دار صبح کو افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایئر پورٹ پر ایک امریکی طیارہ نے لینڈ کیا۔ تقریباًدو دہائیوں کے بعد کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ 1996میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد عالمی برادری نے افغانستان کو تو پوری طرح سے الگ تھلگ کرکے رکھ دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر افغانستان میں پاکستانی سفیر عزیر احمد خان اور طالبان کے اعلیٰ راہنما امریکی مہمان کے استقبال کے لیے رن وے پر کھڑے تھے۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لکدر براہمی کی ناکامی کے بعد امریکہ نے اپنے سب سے  سینئر اور منجھے ہوئے سفارت کار بل رچرڈسن کو طالبان کے ساتھ گفت و شنید کےلیے بھیجا تھا۔

ان کے دورہ کو کامیاب بنانے کےلیے عزیر احمد خان نے خاصہ گراؤنڈ وورک کیا  ہوا تھا۔ وہ تین بار قندھار میں ملا عمر اور کابل میں طالبان کی سپریم کونسل کے سربراہ ملا ربانی آخوند سے ملے تھے اور ان کو باور کرایا تھا کہ بین الاقوامی تنہائی دور کرنے کا یہ ایک نادر موقع ہے۔ تقریباً دو گھنٹے کی ملاقات جو ظہرکی نما ز کے بعد پر تکلف کھانے پر بھی جاری رہی، دونوں فریقین نے ایک معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی۔ رچرڈسن کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ان کا یہ دورہ اس قدر کامیاب ثابت ہوگا۔ وہ جو امیدیں لےکر آئے تھے اس سے کچھ زیادہ ہی لےکر واپس جا رہے تھے۔

معاہدہ کے مطابق طالبان جنگ بندی پر اور شمالی اتحاد کے لیڈران کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنے پر آمادہ  ہو گئے تھے۔ خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم کے حوالے سے امریکہ میں جو خدشات تھے، جن کی وجہ سے حقوق نسواں کی انجمنوں نے صدر کلنٹن کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا، طالبان نے اپنے اعتراضات ختم کر دیے۔ وہ مخلوط تعلیم پر رضامند تو نہیں ہوئے، مگر خواتین کی اعلیٰ تعلیم کےلیے علیحدہ کالج اور یونیورسٹیاں قائم کرے پر تیار ہوگئے تھے اور طے ہوا کہ امریکہ یہ ادارے قائم کروانے میں مدد کرےگا۔ خواتین کے علاج ومعالجہ کےلیے غیر ملکی لیڈی ڈاکٹرز کو کام کرنے کی اجازت دی گئی اور اس دوران افغان خواتین کی طبی تعلیم کے انتظامات کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ طالبان نے یقین دلایا کہ پورے ملک میں پوست و افیم کی کاشت بالکل بند کی جائےگی۔

ایک امریکی عہدیدار نے بعد میں بتایا کہ طالبان اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر راضی تو نہیں ہوئے، مگر انہوں نے عہد کیا کہ لادن اور عرب جنگجوؤں کی سرگرمیوں پر قد غن لگائی جائےگی۔ ملا ربانی نے رچرڈسن کو بتایا کہ بن لاد ن کوئی عالم نہیں ہے۔ وہ کوئی فتویٰ جاری نہیں کرسکتا ہے۔ اس لیے اس کے احکامات کی کوئی پابندی نہیں کرےگا۔ طالبان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ افغانستان کے سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف یا دہشت گردی کے اڈے کے بطور استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ رچرڈسن اور عزیز احمد خان طالبان کی اس لچک پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ لکدر براہمی جہاں ناکام ہو گئے تھے، رچرڈسن بس چند گھنٹے ہی میں سمیٹ کر لے گئے تھے۔

کابل میں چارگھنٹے کے قیام کے بعد رچرڈسن بدخشان میں احمد شاہ مسعود سے ملنے کےلیے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں معلوم ہوا کہ مسعود کسی اور ضروری کام کے سلسلے میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ چلے گئے ہیں۔بعد میں معلوم ہوا کہ جس وقت رچرڈسن کابل میں گفت و شنید میں مصروف تھے، اسی وقت ہندوستانی فضائیہ کا ایک جہاز  دوشنبہ سے 130کلومیٹر دور فرخور ملٹری ایئر پورٹ پر اتر رہا تھا۔ اس ایئر پورٹ کو ہندوستان کی خارجی انٹلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ یعنی راء  نے لیز پر لیا ہوا تھا۔ اس بیس پر ایک ہندوستانی افسرمسعود سے ملاقات کرنے اور کچھ ساز و سامان شمالی اتحاد کے حوالے کرنے آیا تھا۔ رچرڈسن نے اب بدخشاں کے بجائے اپنے طیارہ کا رخ شبرگان کی طرف کیا، جہاں عبدالرشید دوستم، برہان الدین ربانی اور حزب وحدت کے کمانڈر کریم خلیلی اس کے منتظر تھے۔ مسعود نے آخر اس اعلیٰ امریکی عہدیدار سے ملاقات کرنے کےبجائے تاجکستان میں ایک ہندوستانی افسر سے ملاقات پر کیوں ترجیج دی، ہنوز ایک راز ہے۔

کلنٹن انتظامیہ میں رچرڈسن کی حیثیت اور پروفائل کے حوالے سے شاید ہی کوئی ان سے ملاقات سے انکار کرسکتا تھا تاآنکہ کوئی اور وجہ نہ ہو۔شبرگان میں رچرڈسن کےلیےتفریحی پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔ ایک پر تکلف استقبالیہ کے علاوہ ایک میدان میں بز کشی دیکھنے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔شبر گان میں شمالی اتحاد کے لیڈران نے طالبان کے ساتھ براہ راست انٹرا افغان مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی رات اسلام آباد کے ایک عالیشان ہوٹل میں جام لنڈھاتے ہوئے رچرڈسن پاکستان میں مقیم امریکی سفیر کو بتا رہے تھے، کہ افغانی اب جنگ و جد ل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے بیزاری افغانیوں کی آ نکھوں میں جھلک رہی ہے اور وہ ان کی آنکھوں میں دیکھ کر آئے ہیں۔ شمالی اتحاد کےلیے جو سب سے اہم رعایت رچرڈسن حاصل کر کے لے آئے تھے، وہ یہ تھی کہ طالبان نے کوہ بابا یعنی ہزاراجات میں محصور آبادیوں کی اقتصادی ناکہ بندی ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ان علاقوں کے لاکھوں مکین اور امدادی کارکن ایک طرح سے بھوک مری کے شکار تھے۔

اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ  چند ہفتے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پائی گئی ڈیل اور 22سال قبل کابل میں رچرڈسن کے معاہدے کے مندرجات میں شاید ہی کوئی فرق ہے۔مگر اس معاہدہ پر عمل درآمد نہ کرنے اور لیت و لعل کی وجہ سے خطے میں قتل و غارت گری کا ایک ایسا بازار گرم ہوگیاکہ چنگیز خاں و ہلاکو خان کی روحیں بھی تڑپ رہی ہوں گی۔  اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پچھلے دس سالوں میں ہی اس بدقسمت ملک میں ایک لاکھ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ 2001کے بعد جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 975بلین ڈالر خرچ کئے۔ اس کی بس ایک چوتھائی رقم سے ہی افغانستان کی تعمیر نو ہوسکتی تھی۔ اتحاد کے 4030سپاہی اور افسران مارے گئے۔پڑوسی ملک پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60ہزار افراد کی جانیں چلی گئیں اور 120بلین ڈالر کی اقتصادیات متاثر ہوگئیں۔

آخر اس قتل و غارت گری کا کون ذمہ دار ہے؟ افغانستان کو کٹھ پتلی حکمرانوں کے حوالے کرنے کے بجائے ایک عوامی و وسیع البنیاد حکومت کیوں نہیں بنائی گئی؟ اسلام آباد میں امریکی سفیر ٹام سیمنس کے مطابق رچرڈسن نے افغانستان کی تعمیر نو اور معاہدہ کے عملدرآمد کے صورت میں کابل کی طالبان حکومت کو تسلیم کروانے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ ان کے مطابق طالبان کو جو چیز سب سے زیادہ کھٹک رہ تھی، وہ یہ تھی کہ کابل پر ان کا کنٹرول ہونے کے باوجود، اقوام متحدہ میں افغانستان کی سیٹ شمالی اتحاد کے پاس تھی۔ اس معاہدہ کے ایک ماہ بعد ہی ہندوستان اور پاکستان کے جوہری دھماکوں نے جہاں امریکہ کی ترجیحات بدل دی، وہیں دوسری طرف افغانستان کی سفارت کاری رچرڈ ہال بروک کے حوالے کرکے پورے عمل کی ہی ہوانکال کر رکھ دی۔ امریکی مصنف  رائے گوٹمین  اپنی کتاب How We Missed the Story:Osma Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan  میں رقم طراز ہیں کہ امریکی اقدامات سے نہ صرف افغانستان میں سفارت کاری کو دھچکا لگا بلکہ اقوام متحدہ کی نئی کاوشوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لکدر براہمی جو پہلے مرحلے میں ناکام ثابت ہو گئے تھے کا کہنا تھا کہ طالبان جنگی جرائم کی تحقیقات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے حوالے کرنے پرراضی ہوگئے تھے۔ ان کے مطابق امن مساعی کےلیے ایک کھڑکی کھل گئی تھی۔ مگر وہ افسوس کر رہے تھے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے خود ہی کاہلی کا ثبوت دیا اور امریکیوں نے بھی ثابت کیا کہ ان کو مذاکرتی عمل کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بل رچرڈسن کا سفارتی مشن بس ایک پکنک ہی بن کر رہ گیا۔ اس دوران طالبان نے پوست کی کاشت کو ممنوعہ قرار دیا اور اس کے لئے سخت سزا تجویز کی۔  ملا عمر نے بن لادن کی سرگرمیوں اور اس کی اعلانیہ پریس کانفرنس کرنے پر روک لگا دی۔ اسلام آباد میں طالبان کے نمائندے نے امریکی سفارت کاروں کو بتایا کہ بن لادن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور وہ کابل انتظامیہ کو جوابدہ ہوں گے۔ اسی دوران قندھار میں سعودی انٹلی جنس چیف ترکی الفیصل اور ملاعمرکے درمیان طے پایا گیا کہ ایک مشترکہ افغان اور سعودی علماء کونسل بن لادن کے مستقبل اور اس کو سعودی حکومت کو حوالے کرنے کے طریقہ کار پر غور کرےگی۔

مگر جنگ بندی کے میکانزم کو ترتیب دینے میں واشنگٹن کی عدم دلچسپی اور دیگر امور پر امریکہ کی طرف سے عدم پیش رفت کی وجہ سے طالبان نے شبر گان، مزار شریف اور بامیان پر فوج کشی کی۔ان حملوں کے دوران قتل و غارت گری کی ایک داستان رقم کی گئی۔ سال بھر قبل مزار شریف میں طالبان کو ہزیمت کا سامنا کرکے لاشیں چھوڑنی پڑی تھیں، ہزارہ آبادی کو قتل کرکے اس کا پورا بدلہ چکایا گیا۔ رہی سہی کسر افریقی شہر نیروبی میں امریکی سفارت خانے پر خودکش بمباری نے پوری کی، جس میں 200سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے تار جلد ہی اسامہ بن لادن سے مل گئے۔ نیروبی میں جس وقت دھماکے ہو رہے تھے، کراچی کے ایئر پورٹ پر امیگریشن افسر نے بطور مذاق یمنی پاسپورٹ پر آئے ایک مسافر سے پوچھا کہ وہ کہیں دہشت گرد تو نہیں ہے؟ اس مسافر کے پاسپورٹ پر جو تصویر تھی اس میں لمبی داڑھی تھی، جبکہ سامنے بیٹھا ہوا شخص کلین شیو تھا۔ عام طور پر معاملہ الٹا ہوتا ہے۔

پاسپورٹ کی تصویر میں کلین شیو آدمی عام طور پر داڑھی بڑھاتا ہے۔ یہ شخص اردن میں مقیم فلسطینی محمد صدیق آودہ تھا، جو نیروبی میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کے لیے لاجسٹکس وغیرہ کے انتظامات پر مامور تھا۔ امیگریشن افسر کے سوال کو ٹالنے کے بجائے اس نے دہشت گردی  اور امریکہ کے خلاف حملوں کو جائز بتا کر بحث شروع کی اور   بتایا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ ایک مقصد کی تکمیل کی خاطر کر رہا ہے۔ اس کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ انٹروگیشن میں اس نے پورے واقعہ کی پول کھول کر رکھ دی، جس کی تفتیش میں شاید امریکیوں کو برسہا برس لگ جاتے۔ اس کو بعد میں کینیا ڈی پورٹ کیا گیا۔

1998 کی اس امن مساعی کی ناکامی کے لیے دونوں فریقین ذمہ دار ہیں۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کسی پیش رفت نہ ہونا، طالبان کا مزار شریف اور شبر گان پر قبضہ کے بعد درگزر کے بجائے ہزارا آبادی کا قافیہ تنگ کرنا، 11ایرانی سفارت کاروں کی ہلاکت، پاکستان کے کٹر سنی انتہا پسند گروپوں کو اس آپریشن میں شامل کروانا اور پھر نیروبی میں امریکی سفارت خانے میں خود کش حملوں نے رچرڈسن کے مشن کو بری طرح ناکام کرکے رکھ دیا۔ طالبان نے بعد میں ترکی الفیصل کو دوسرے دورہ کے دوران پھر خوب کھری کھوٹی سنائی۔ اس کی ریاض واپسی کے فوراً بعد سعودی عرب نے بدلے میں ریاض میں طالبان کے سفارت خانے کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔ امید ہے کہ زلمے خلیل زاد کی سفارت کاری رچرڈسن کی طرح محض پکنک کی نذر نہ ہوجائے اور صدر ٹرمپ اپنے پیش رو صدر کلنٹن کا وطیرہ نہ اپنائیں۔ افغانستان میں امن اور ایک عوامی حکومت کا قیام پورے خطے کےلیے خوشحالی کا پیامبر ہوسکتا ہے۔