خبریں

کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے پیلیٹ گن کے استعمال پر روک لگانے کی مانگ سے جڑی عرضی خارج

پیلیٹ گن پر روک لگانے کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ جب تک بے قابو بھیڑ کے ذریعے تشدد کیا جاتا ہے، طاقت  کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اس عرضی کو بدھ کو خارج کر دیا جس میں وادی میں مظاہروں کے دوران بھیڑ کو قابو کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے ذریعے  پیلیٹ گن کے استعمال پر روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر کی آئینی بنچ نے  عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا، ‘یہ واضح  ہے کہ جب تک بے قابو بھیڑ کے ذریعے تشدد کیا جاتا ہے، فورس کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔’

یہ پی آئی ایل کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے 2016 میں دائر کی گئی تھی۔ سکیورٹی فورسز کے ذریعے انکاؤنٹر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو مار گرائے جانے کے بعد ہوئے پر تشدد مظاہروں کے دوران مشتعل  بھیڑ کو قابوکرنے کے لئے پیلیٹ گن کا استعمال کیا گیا تھا اور سیکڑوں لوگ اس سے زخمی  ہو گئے تھے، جس کے بعد یہ عرضی دائر کی گئی تھی۔

بنچ نے کہا کہ کسی طے وقت یا حالات یا جگہ پر کس طرح کی فورس استعمال  کرنی ہے، یہ فیصلہ اس جگہ کے انچارج شخص پر  منحصر کرتا ہے جو اس جگہ تعینات ہے، جہاں حملہ ہو رہا ہے۔عدالت نے عرضی  خارج کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیلیٹ گن کے استعمال پر پابندی لگانے کی خواہش مند  نہیں ہے ۔

غورطلب ہے کہ وادی  میں پتھراؤ کے واقعات  کے دوران بھیڑ کو قابو کرنے کے لیے فوج کے ذریعے اکثر پیلیٹ گن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پیلیٹ گن کی وجہ سے وادی  کے کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی سارے لوگوں نے اپنی بینائی بھی گنوا دی ہے۔

دکن کر انکل نے سرینگر واقع ایس ایم ایچ ایس ہاسپٹل کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ذریعے  بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے پیلیٹ گن کے استعمال کی وجہ سے سال 2016 سے تقریباً 1300 لوگ جزوی  طور پر یا پوری طرح سے بینائی سے محروم  ہو چکے ہیں۔ ان میں 60 لوگوں کو دونوں آنکھوں میں چوٹ آئی تھی۔ پیلیٹ گن کے شکار زیادہ تر مریضوں کا علاج ایس ایم ایچ ایس ہاسپٹل میں ہی ہوتا ہے۔

پچھلے سال 29 اگست کو آئی ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر وادی میں 5 اگست کے بعد 36 لوگ پیلیٹ گن سے زخمی ہوئے تھے۔ رپورٹ میں ایک سینئر افسرنے یہ جانکاری دی تھی کہ یہ اعداد وشمار  سرینگر کے اسپتال انتظامیہ  کے ذریعے  دیے گئے ریکارڈس پر مبنی ہیں ۔

بتا دیں کہ گزشتہ سال پانچ اگست کو مرکز کی مودی حکومت نے جموں وکشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے ساتھ اس کو دویونین ٹریٹری جموں وکشمیر اور لداخ میں بانٹنے کا اعلان  کیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)