خبریں

این پی آر میں کسی طرح کے دستاویز نہیں مانگے جا ئیں گے، کسی کو ’مشکوک‘ نہیں مانا جائے گا: امت شاہ

مرکزی وزیر داخلہ  امت شاہ نے راجیہ سبھا میں کہا، ‘این پی آر کے لیے کسی طرح کے  دستاویز نہیں مانگے جائیں گے۔ اگر کسی کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے تو اس کو شیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’

وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی وزیرداخلہ  امت شاہ نے پارلیامنٹ میں کہا کہ این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کے دوران اگر کوئی شخص  مانگی گئی جانکاری مہیا نہیں کرا پاتا ہے تو اس کو ‘ڈی’ یا ‘مشکوک ’ کے زمرے  میں نہیں رکھا جائےگا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، اپوزیشن کو یہ دلاسہ دیتے ہوئے کہ  وہ این پی آر اور شہریت قانون (سی اےاے)پر بحث کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں، شاہ نے دہلی فسادات  پر بحث کے دوران راجیہ سبھا میں کہا کہ این پی آرکی کارروائی  کے دوران کوئی بھی دستاویز مانگے نہیں جا ئیں گے اور شہریت  کی تصدیق  نہیں کی جائےگی۔

امت شاہ نے کہا کہ ملک  میں کسی کو بھی این پی آر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہے جانے پر کہ شہریت کے ضابطوں  میں یہ اہتمام  ہے کہ این پی آر کارروائی کے دوران دستاویز مہیا کرانے میں نااہل  رہنے والے شہریوں  کے نام کے آگے ‘ڈی’ یا ‘مشکوک ’ لکھا جائےگا۔اس پر امت شاہ نے کہا، ‘میں یہ واضح طور پر کہتا ہوں۔ پہلا، این پی آر کے لیے کوئی دستاویز نہیں مانگے جائیں  گے۔ دوسرا، اگر آپ کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے تو اس کو شیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور تیسرا، بطور وزیر داخلہ  میں راجیہ سبھا سے یہ بات کہتا ہوں، کسی کو بھی ‘ڈی’ مارک نہیں کیا جائےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘کوئی بھی دستاویز نہیں مانگے جائیں گے۔ سبھی اطلاعات رضاکارانہ ہیں۔ شخص جو بھی جانکاری شیئر کرنا چاہتا ہے و ہی ریکارڈ کیا جائےگا۔’

یہ بھی پڑھیں:خصوصی رپورٹ: این پی آر پر عوام کو گمراہ کرتی مودی حکومت

امت شاہ کی جانب سے یقین دہانی کرانے  پر اپوزیشن کے رہنماغلام نبی آزاد نےپوچھا، ‘اگر میں نے صحیح  سنا ہے، وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی شخص  کے نام کے آگے ‘ڈی’ نہیں لکھا جائےگا۔ ہے نا؟’ اس پر شاہ نے کہا، ‘ہاں’۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے کسی رہنما کو شک  ہے تو وہ ان سے چرچہ  کریں گے۔حالانکہ دی  وائر نے گزشتہ  جنوری مہینے میں رپورٹ کر کے بتایا تھا کہ وزارت داخلہ  کی سرکاری  فائلوں میں یہ نہیں لکھا ہے کہ این پی آرکے دوران مانگی جانے والی جانکاری ‘رضاکارانہ ’ یا ‘مرضی ’ پر  منحصرہے۔ دستاویزوں میں واضح طور پرصرف یہ لکھا ہے کہ مختلف  جانکاریاں جمع  کی جائیں گی۔

سرکاری دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزارت داخلہ این پی آر کے تحت آدھار نمبر اکٹھا کرنے کے لیے پوری طرح سے من بنایا ہوا ہے۔ عالم یہ ہے کہ 2020 کا این پی آر شروع ہونے سے پہلے ہی تقریباً60 کروڑ آدھار نمبر این پی آر ڈیٹابیس سے جوڑا جا چکا ہے۔امت شاہ کی یہ یقین دہانی  ایسے وقت پر آئی ہے جب ملک  کی  کئی ریاستوں نے این پی آر، 2020 کے خلاف تجویزپاس کی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں متنازعہ شہریت  قانون، این آرسی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

پنجاب، راجستھان،مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ، پانڈی چیری، بہار اور آندھر پردیش نے این پی آر کے خلاف تجویز پاس کی ہے اور اڑیسہ  اور تلنگانہ جیسی  ریاستوں نے این پی آر فارم میں والدین کی جائے پیدائش سے جڑی جانکاری مانگنے پر اعتراض کیا ہے۔شہریت کے ضابطے  کے مطابق این پی آر ڈیٹا کی تصدیق تب شروع ہوگی  جب این آرسی نافذ کیا جائےگا۔ این پی آر کے تحت ملک میں رہ رہے سبھی شہریوں  کی جانکاری اکٹھا کی جائے گی اور این آرسی کارروائی  کے دوران اس کی  تصدیق  کی جائےگی  اور ‘مشکوک شہریوں’ کی پہچان کی جائےگی۔ شہریت ضابطہ، 2003 کے تحت این پی آر این آرسی کی کارروائی  کا پہلا قدم ہے۔