خبریں

کیرالہ کے بعد، راجستھان نے شہریت ترمیم قانون کے آئینی جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا

راجستھان حکومت کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعے لایا گیا شہریت ترمیم قانون آئین کے اصل جذبہ کے برعکس ہے اور یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس قانون کے آئینی جواز کو چیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں اب تک 160 سے زیادہ عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: کانگریس کی قیادت والی راجستھان حکومت نے سوموار کو شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔ راجستھان حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سے آئین میں درج مساوات اور جینے کے حقوق جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔کیرل کے بعد راجستھان دوسری ریاست ہے جس نے شہریت ترمیم قانون کے آئینی جواز کو چیلنج دینے کے لئے آئین کے آرٹیکل 131 کا سہارا لےکر سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت مرکز سے تنازعہ ہونے کی حالت میں ریاست سیدھے سپریم کورٹ  میں معاملہ دائر کر سکتی ہے۔

لائیو لا ءکے مطابق، راجستھان حکومت نے متنازعہ شہریت ترمیم قانون 2019 کے جواز کو چیلنج دیتے ہوئے ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 131 کے تحت سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔راجستھان حکومت کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعے لایا گیا یہ قانون آئین کے اصل جذبہ کے برعکس ہے اور یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو رد کرے کیونکہ یہ ریاست کے حقوق کے خلاف ہے۔

ریاستی حکومت نے شہریت ترمیم قانون کو آئین کے اہتماموں سے الگ اور زیرو اعلان کرنے کی اپیل کی ہے۔اس سے پہلے کیرالہ ریاست سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے پاسپورٹ (ہندوستان میں داخلہ) ترمیم اصول 2015 اور غیر ملکی (ترمیم) حکم 2015 کو بھی چیلنج کیا ہے جس نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ان غیرمسلم مہاجروں کے سفر کو باقاعدہ کر دیا ہے جو 31 دسمبر، 2014 سے پہلے اس شرط پر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے کہ وہ اپنے ملک میں مذہبی ظلم وستم کی وجہ سے بھاگ آئے تھے۔

ہندوستان کی منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس کے سکریٹری اور حکومت ہند کو اس مقدمہ میں مدعا علیہ بنایا گیا ہے۔دراصل آئین کا آرٹیکل 131 حکومت ہند اور کسی بھی ریاست کے درمیان کسی بھی تنازعہ میں سپریم کورٹ  کو بنیادی دائرہ اختیار دیتا ہے، جہاں تک اس تنازعہ میں کوئی سوال (قانون یا فیکٹ کا) شامل ہے، جس پر قانونی حق کے وجود یا حد کا انحصار ہوتا ہے۔

کیرل نے اس مقدمہ میں سی اے اے اور پاسپورٹ (ہندوستان میں داخلہ) اصول اور غیر ملکیوں کے تحت نافذ کئے گئے نوٹیفکیشن کو قانونی تنازعہ کے طور پر اعلان کیا ہے کیونکہ وہ ظاہری طور پر من مانے اور غیر آئینی ہیں۔آرٹیکل 131 کے تحت مقدمہ قائم رکھنے کے لئے عرضی میں کہا گیا ہے، آئین کے آرٹیکل 256 کے مینڈیٹ کے مطابق، یہ شہریت ترمیم قانون،  پاسپورٹ ترمیم ایکٹ اور متاثر غیر ملکی ترمیمی حکم  کے اہتماموں کی تعمیل متعین کرنے کے لئے مدعی ریاست کو مجبور کرے گا جو واضح طور پر صوابدیدی، غیر مناسب آرٹیکل 14، 21 اور 25 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر معقول ہے۔

عرضی میں یہ اعلان کرنے کی اپیل کی گئی ہے کہ سی اے اے آئین کے آرٹیکل 14، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے اور ساتھ ہی آئین میں مشتمل سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچہ کےاصول کی خلاف ورزی ہے۔ اس میں سی اے اے، پاسپورٹ (ہندوستان میں داخلہ) ترمیم اصول 2015، اور غیر ملکی (ترمیم) حکم 2015 کو آئین کے تحت زیرو اعلان کرنے کی مانگ بھی کی گئی ہے۔

یہ مقدمہ سی اے اے کو اسی بنیاد پر چیلنج دیتا ہے جیسے کہ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی مختلف دیگر عرضی میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس قانون کے ذریعے تحفظ سے مہاجروں کے مذہب کی بنیاد پر بائیکاٹ کیا جائے‌گا۔ اس لئے درجہ بندی کو غیر مناسب اور تعصب آمیز بتایا گیا ہے۔ یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ یہ قانون ہندوستانی آئین کے سیکولر کردار کی خلاف ورزی کرکے شہریت کو مذہب سے جوڑتا ہے۔

اس قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اب تک 160 سے زیادہ عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں۔

شہریت ترمیم قانون، 2019 میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں مذہبی ظلم وستم کی وجہ سے 31 دسمبر، 2014 تک ہندوستان آئے اقلیتی ہندو، سکھ، بودھ، عیسائی، جین اور پارسی کمیونٹی کے ممبروں کو ہندوستان کی شہریت دینے کا اہتمام ہے۔ اس قانون میں مسلم کمیونٹی کو شہریت کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔ اس لئے اس کی پورے ملک  میں مخالفت ہو رہی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)