خبریں

نجمہ اختر کو جامعہ وی سی بنانے کی سفارش کرنے والے پینل نے ان کو ہٹانے کی مانگ کی

دہلی واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر نجمہ اختر نے متنازعہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کے مدنظر کیمپس میں گھسنے کو لےکر دہلی پولیس کی سخت تنقید کی تھی اور ان پر سخت کارروائی کی مانگ کی تھی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر (فوٹو : پی ٹی آئی)

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی:جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وائس چانسلر کی تقرری کے لئے امیدواروں کی سفارش کرنے والی سرچ کمیٹی کے ایک ممبر نے صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کو خط لکھ‌کر کہا ہے کہ یونیورسٹی کی موجودہ وائس چانسلر (وی سی) نجمہ اختر کو عہدے سے ہٹایا جائے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کمیٹی کے ممبر راماکرشنا راماسوامی نے گزشتہ آٹھ مارچ کو صدر کو لکھے خط میں دعویٰ کیا کہ سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) نے اختر کو ویجیلنس کلیرنس نہیں دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے 10 جنوری 2019 کو اس بارے میں ایک خط لکھا تھا۔

راماسوامی نے نیوزپیپر رپورٹس کا سہارا لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سی وی سی نے سفارش کی تھی کہ ایم ایچ آر ڈی کی کسی بھی تنظیم، ادارہ یا یونیورسٹی میں نجمہ اختر کی تقرری نہیں کی جانی چاہیے۔ حالانکہ ان کے خط میں کوئی خاص وجہ نہیں بتائی گئی ہے کہ آخر کس بنیاد پر سی وی سی نے یہ اعتراض کیا تھا اور کس لئے ویجیلنس کلیرنس نہیں دیا گیا۔

معلوم ہو کہ تین مہینے پہلے جامعہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر نجمہ اختر نے متنازعہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کے مدنظر جامعہ کیمپس میں گھسنے کو لےکر دہلی پولیس کی سخت تنقید کی تھی اور ان پر سخت کارروائی کی مانگ کی تھی۔خاص بات یہ ہے کہ اسی سرچ کمیٹی نے نجمہ اختر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر بنانے کی سفارش کی تھی۔ اس کمیٹی کی تشکیل 17 اکتوبر 2018 کو ہوئی تھی۔ سرچ کمیٹی نے چھے نومبر کو پہلا اجلاس کیا اور 107 امید واروں میں سے 13 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا۔ صدر نے 11 اپریل 2019 کو نجمہ اختر کی تقرری کو منظوری دی تھی۔

راماسوامی کے علاوہ سرچ کمیٹی میں پروفیسر ڈی پی سنگھ اور ریٹائرڈ جسٹس ایم ایس اے صدیقی ہیں۔ راماسوامی نے اپنے خط میں آگے لکھا، ‘ پچھلے کچھ مہینوں میں آپ نے مرکزی یونیورسٹیوں کے وزیٹر کے طور پر قابل تقلید قیادت دکھاتے ہوئے دو مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹایا، جب ان کی ساکھ پر سوال اٹھا تھا۔ ‘

انہوں نے کہا کہ سی وی سی کے ذریعے لکھا گیا خط اپنے آپ میں بد سلوکی کا ثبوت ہے اور ایسی حالت میں ،میں اپیل کر رہا ہوں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معاملے میں ویسی ہی احتیاط برتی جائے اور مناسب کارروائی کی جائے۔بتا دیں کہ نجمہ اختر کی تقرری کو چیلنج دینے والی ایک عرضی فی الحال دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی وی سی نے شروعات میں اختر کو ویجیلنس کلیرنس نہیں دیا تھا۔