خبریں

انتخابی بانڈ معاملہ کی سماعت کرنے والے رنجن گگوئی کو اب یہ معاملہ یاد نہیں

لوک سبھا انتخابات کے دوران اس معاملہ کو لےکر ہو رہی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی رہنمائی والی ایک بنچ نے ہی انتخابی بانڈ اسکیم پر روک لگانے سے منع کر دیا تھا۔

سی جے آئی رنجن گگوئی ، فوٹو: پی ٹی آئی

سی جے آئی رنجن گگوئی ، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: راجیہ سبھا رکن پارلیامان اور ہندوستان کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے یہ کہتے ہوئے انتخابی بانڈ پر ایک سوال کو ٹال دیا کہ ان کو یہ معاملہ یاد نہیں ہے۔ٹائمس ناؤ کو دیے ایک انٹرویو میں جب اینکر نے سپریم کورٹ میں متنازعہ انتخابی بانڈ معاملہ کی سماعت میں تاخیر پر سوال پوچھا تو گگوئی نے کہا، ‘انتخابی بانڈ معاملہ، مجھے یاد نہیں ہے، سچ میں۔ ‘ حالانکہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اس معاملہ کو لےکر ہو رہی سماعت کے دوران رنجن گگوئی کی رہنمائی والی ایک بنچ نے ہی انتخابی بانڈ اسکیم پر روک لگانے سے منع کر دیا تھا۔

مودی حکومت کے ذریعے لائی گئی انتخابی بانڈ اسکیم کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت میں تاخیر کو لےکر مختلف طبقوں نے سخت تنقید کی ہے۔ یہ عرضی سال 2017 میں مالی بل، 2017 کے اہتماموں کو چیلنج دیتے ہوئے دائر کی گئی تھی۔

فنانس بل، 2017 نے انتخابی بانڈ اسکیم لانے کے لئے راستہ تیار کیا تھا۔ اس بل نے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ، کمپنیز ایکٹ، انکم ٹیکس ایکٹ، عوامی نماِندگی قانون  اور فارین کنٹری بیوشن(ریگولیشن) ایکٹ میں ترمیم کی، جس کی بنیاد پر حکومت انتخابی بانڈ اسکیم لا پائی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان اہتماموں کو 2017 میں ہی چیلنج کیا گیا تھا لیکن معاملہ کی اصلی سماعت 2019 میں شروع ہوئی، تب تک بہت سارے انتخابی بانڈ خریدے جا چکے تھے۔

سپریم کورٹ میں اس معاملہ کو لےکر کئی سماعت کے بعد گزشتہ سال لوک سبھا انتخابات کے وقت 12 اپریل کو اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور سنجیو کھنہ کی بنچ نے ایک عبوری فیصلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایت دی کہ وہ 30 مئی، 2019 تک  ایک مہر بند لفافے میں انتخابی بانڈ سے متعلق تمام جانکاری الیکشن کمیشن کو دیں۔

حالانکہ بنچ نے اس اسکیم پر روک نہیں لگائی، جس کی وجہ سے کئی ہزار کروڑ کے چندے سیاسی جماعتوں کو پوشیدہ طریقے سے حاصل ہوئے۔ رنجن گگوئی کے چیف جسٹس رہتے پھر کبھی اس معاملہ کی سماعت نہیں ہوئی تھی۔ ابھی بھی یہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔بعد میں دسمبر 2019 میں درخواست گزار ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے اس اسکیم پر روک لگانے کے لئے ایک درخواست دائر کی۔ یہ درخواست ان میڈیا رپورٹس کو بنیاد بناتے ہوئے دائر کی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کس طرح انتخابی بانڈ اسکیم پر الیکشن کمیشن اور ریزرو بینک کے خدشات کو مرکزی حکومت نے درکنار کیا تھا۔

اس پر نئے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا کہ معاملہ کی سماعت جنوری 2020 میں ہوگی۔ جب جنوری میں سماعت ہوئی تو الیکشن کمیشن کے ذریعے جواب داخل کرنے کے لئے اس کو پھر سے ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے ابھی تک اس معاملہ کو سماعت کے لئے لسٹیڈ نہیں کیا گیا ہے۔


یہ بھی پڑھیں : سال 2018-2019 میں دوگنی ہوئی بی جے پی کی آمدنی، انتخابی بانڈ سے ملا 60 فیصدی


الیکشن کمیشن پہلے ہی سپریم کورٹ میں ایک جوابی حلف نامہ دائر کر کے کہہ چکا ہے کہ انتخابی بانڈ اسکیم سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے کی شفافیت کے لئے خطرہ ہے اور یہ وقت میں پیچھے جانے والا قدم ہے۔

انتخابی بانڈ کے ذریعے اب تک سب سے زیادہ چندہ بی جے پی کو ملا ہے۔ بی جے پی کی کل آمدنی کا 60 فیصد حصہ انتخابی بانڈ کے ذریعے اکٹھا ہوا ہے۔ انتخابی بانڈ سے ہی بی جے پی کو 1450 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ مالی سال 2017-2018 میں بی جے پی نے انتخابی بانڈ سے 210 کروڑ روپے کی آمدنی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

انتخابی بانڈ کے تحت چندہ دینے والے کی پہچان مخفی رکھی جاتی ہے۔