خبریں

کورونا وائرس: اس مشکل وقت میں ملک کو کیرالہ سے سیکھنے کی ضرورت ہے

ہندوستان میں میڈیا اور حکومتی حلقے اعتراف کرتے ہیں کہ کیرالہ صوبہ کی بائیں بازو اتحاد حکومت نے قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے دوران عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھ کر بغیر خوف و ہراس پھیلائے خاصی حد تک وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

پچھلے دنوں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے پہل کرکے کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم سارک کے رکن ممالک کے سربراہان کی ویڈیو کانفرنس بلانے کی تجویز دی، ذرائع کے مطابق نئی دہلی کے مقتدر حلقوں اور کاٹھمنڈو میں مقیم تنظیم کے سکریٹریٹ کے افسران نے مشورہ دیا تھاکہ ہندوستان کے جنوبی صوبہ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ کو بھی اس میں شامل کیا جائے، تاکہ رکن ممالک ان کے تجربات سے استفادہ حاصل کرسکیں۔

چونکہ اس کانفرنس کا انعقاد  متعدی مرض کا علاج ڈھونڈنے یا کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے  سے زیادہ مودی کے لیے پبلسٹی حاصل کروانا اور خطے میں لیڈرشپ کی دھاک بٹھانا تھا، اس لیے اس تجویز کو ناقابل غور سمجھا گیا۔ اور تو اور ملک سے خطاب کے دوران بھی وزیراعظم مودی نے بھولے سے بھی حکومت کیرالہ کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا، جن کی عالمی سطح پر ستائش کی جا رہی ہے۔ اگر واقعی سارک ممالک کے سربراہان مشترکہ طور پر وائرس کو قابو کرنا چاہتے تھے، تو کم از کم چین سمیت دیگر مشاہدین ممالک کو بھی دعوت دے کر ان کے تجربات کی روشنی میں کوئی طریقہ کار وضع کیا جاسکتا تھا۔

ہندوستان میں میڈیا اور حکومتی حلقے اعتراف کرتے ہیں کہ کیرالہ صوبہ کی بائیں بازو اتحاد حکومت نے قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کے دوران عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھ کر بغیر خوف و ہراس پھیلائے خاصی حد تک وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بحیرہ عرب کے ساحل پر بسے اس صوبہ کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے اور بقیہ صوبوں کے مقابلے خاصی  گنجان آبادی ہے۔ ہندوستان میں جہاں اوسطاً420افراد فی مربع کلومیٹر رہتے ہیں، کیرالہ میں یہ تناسب 860ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبہ کی 35لاکھ آبادی بیرون ملک مقیم ہے۔

اس آباد ی کا بڑا حصہ خلیجی ممالک میں برسرروزگار ہے۔ مارچ کے اوائل سے ہی صوبہ میں 40ہزار افراد کی اسکریننگ کی گئی اور ساڑھے تیس ہزار افراد کو نگرانی میں رکھا گیا۔ بیشتر ان میں اپنے گھروں میں ہی قرنطینہ میں ہیں۔ مگر مقامی ہیلتھ سینٹرز ان پر کڑی نگرانی رکھے ہوئے ہیں۔اب تک 52 افراد کو اس مرض کا شکار پایا گیا۔صوبہ کے ہیلتھ سکریٹری ڈاکٹررنجن کھوبراگڑے کے مطابق ہوائی اڈوں پر اسکریننگ کرنے سے خاصا فائدہ پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ مرض ظاہر ہوگیا تو یہ طے تھا کہ کیرالہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ہے۔ کیونکہ اس صوبہ کی ایک بڑی آبادی بیرون ملک مقیم ہے۔اس لیے17جنوری کو ہی صوبہ میں الرٹ جاری کیا اور 3فروری کو میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا۔

مگر اس سے اہم بات  یہ ہے کہ صوبہ کو لاک ڈاؤن کرنے سے قبل حکومت نے 200بلین روپے کا ایک پیکیج منظور کیا۔ جس میں 10بلین روپے دیہی علاقوں میں روزگار پر پڑے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے، ایک بلین سوشل سیکورٹی کے لیےمختص کئے گئے۔ پورے صوبہ میں اس دوران ایک ماہ تک مفت راشن کا انتظام کیا گیا ہے، اور اس میں امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اپنے پڑوسی صوبوں کی نسبت کیرالہ صنعتی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہے۔مگر سماجی ترقی کے لحاظ سے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس شعبے میں اس نے کئی ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔صوبہ کی شرح خواندگی صدفیصد ہے جبکہ ہندوستان کی 65 فیصد۔ اس کا صنفی تناسب بھی سب سے بہتر ہے، ایک ہزار مردوں پر 1058 عورتیں ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب ایک ہزار پر 933 ہے۔اس سے قبل 2018میں ڈبلیو ایچ او نے نیپا وائرس کے نپٹنے کے لیے صوبہ کی ستائش کی تھی۔

کورونا وائرس اس خطے میں سب سے پہلے کیرالہ میں ہی رپورٹ ہوا۔ماہرین کے مطابق ایک اعلیٰ نگرانی سسٹم کی بدولت ہی ایسا ممکن ہو پایا۔ ڈاکٹرکھوبراگڑے کے مطابق 31  جنوری کو ہی چین کے شہر ووہان میں زیر تعلیم تین میڈیکل کے طالب علم اس مرض کے شکار پائے گئے، چونکہ ایئر پورٹ پر ہی مرض کی تشخص ہو گئی تھی اس لیے یہ وبا ان کے کسی فیملی ممبر کو لپیٹ میں نہیں لے پائی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت ووہان میں چین کے ذریعے اپنائے گئے طریقہ کار کی ہی پیروی کر رہی ہے۔ صوبہ میں سوشل دوری، عوام کو گھروں میں بیٹھنے کی ہدایات تو مارچ کے پہلے ہفتے میں ہی جاری کی گئی تھیں۔

میرج ہال و کنونشن سینٹروں کی ہدایت دی گئی تھی کہ تمام تقریبات منسوخ کرکے منتظمین کو رقوم واپس کردیں۔ فروری میں ہی ہوائی اڈوں پر اسکریننگ سسٹم لگائے گئے تھے اور بیرون ممالک سے آنے واے سبھی افراد کی اسکریننگ کے علاوہ ان کی سفری ہسٹری کا بھی ڈیٹا بنایا گیا۔ اگر کسی بھی مسافر میں کوئی علامت پائی گئی یا وہ کسی ایسے علاقے سے آیا تھا، جہاں مرض پھوٹ پڑا تھا، اس کو  قرنطینہ میں رکھا گیا۔ اسکریننگ شروع کرنے سے قبل پچھلے تین ماہ کے دوران جو افراد صوبہ میں ایسے علاقوں سے آئے تھے، جو وبا کی زد میں تھے، ان کوٹریس کرکے ان کی سفری ہسٹری بنا کر اس کو ان کے نام کے بغیر مشتہر کیا گیا، تاکہ ان علاقوں کے افراداپنے ٹیسٹ کروالیں اور اپنے آپ کو اپنے گھروں تک محدود کریں۔

اسی طرح حکومت نے کمیونٹی اسکریننگ کا سلسلہ ان علاقوں میں بھی شروع کیا، جو ابھی تک زیرو رسک زون میں آتے تھے۔ اس کے علاوہ صوبہ کی 800ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل ایسوسی ایشن نے رضاکارانہ دستے تشکیل دےکر ضلع سطح پر نگرانی سسٹم تشکیل دےکر خاصی آسانیاں پیداکردیں۔ پچھلے تین ماہ سے جن افراد نے بیرون ملک سفر کیا، ان کی اسکریننگ کی گئی۔ ان افراد کا ایک ڈیٹا بیس تیار کیا گیا  اور ان کو اسپتالوں خاص طور پر کینسر و دیگر کم قوت مدافعت رکھنے والے مریضوں سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی۔ماسک اور جراثیم کش مائع کی کمی کو پورا کرنے کےلیے صوبہ کی جیلوں میں موجود قیدیوں کو اس کی تیاری پر لگا دیا گیا۔ چند روز میں ہی ہیلتھ سینٹروں کے ذریعے 6000ماسک بانٹے گئے۔

گو کہ صوبہ میں اسکول بند ہیں، مگر 3.75لاکھ بچوں کے لیے ان کے گھروں  پر دن میں ایک بار تغذیہ سے بھر پور خوراک کی ترسیل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ کھانا بنانے کا کام’کو دام باشری اسکیم‘کے تحت خواتین کے سپرد کیا گیا۔ یہ اسکیم جس کے تحت 20خواتین کے ایک گروپ کو بلا سودی قرضے فراہم کئے جاتے ہیں ایک دہائی سے لاگو ہے، تاکہ وہ اپنے علاقوں میں چھوٹے روزگار میں سرمایہ کاری کرکے خاندان کے لیےآمدنی کا ذریعہ پیدا کردیں۔اس اسکیم پر حکومت نے 20  بلین  روپے کی رقم مختص کی ہے۔ موجودہ حالات میں خواتین کے اس نیٹ ورک نے لوگوں تک کھانے پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

  مختلف جگہوں پر ان خواتین کے ذریعے کمیونٹی کچن بنائے گئے ہیں، جہاں سے وہ اسکولی بچوں کے علاوہ، ریستوراں اور ہوٹلوں کو بھی کھانا فراہم کرتے ہیں۔ فی الحال حکومت نے سبھی ریستوراں مالکان کو پابند کر دیا ہے کہ وہ گراہکوں کو صرف 20روپے میں کھانا فراہم کریں۔ ویسے اس اسکیم کے تحت خواتین کو روزگار کمانے کی ٹریننگ بھی جاتی ہے۔ کیرالہ میں پیڑ پر چڑھ کر ناریل توڑنا ایک منافع بخش پیشہ ہے اور اس پر صرف مردوں کی اجارہ داری تھی۔ صرف پیشہ ور افراد ہی پیڑ پر چڑھ کر ناریل توڑ سکتے تھے اور ہر 45دن کے بعد جب ان کی ضرورت پیش آتی تھی تو وہ لوگوں کی ضرورت سے فائدہ اٹھا کر خوب رقم اینٹھ لیتے تھے۔جب دیہی خواتین کو ہی پیڑ پر چڑھ کر ناریل توڑنے کی ٹریننگ دی گئی تو نہ صرف پھل کے دام گھٹ گئے، بلکہ ان خواتین کے روزگار کا بھی انتظام ہوگیا۔

ان خواتین کا ایک جوائنٹ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے اور تقریباً 10 لاکھ روپے تک کی رقم بلا سود ی قرضے کی شکل میں دی جاتی ہے۔ اب تک صوبہ میں ڈھائی لاکھ خواتین کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، جس نے فی الحال اس وبائی مرض کے دوران صوبہ کے لاک ڈاؤن کے باوجود کسی کو بھی بھوک مری کا احساس نہیں ہونے دیا ہے۔ اسی دوران صوبہ میں براڈ بینڈ نیٹ ورک کو مزید مضبوط بنانے کے انتظامات کئے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے ہی کام کاج کریں۔قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کو مصروف رکھنے کے لیے ان کو کتابیں، ٹیبلٹ و لیپ ٹاپ لانے کی اجازت دی گئی، نیز نفسیاتی و دماغی ڈاکٹروں کو بھی ان کی مسلسل کونسلنگ کرنے کی ہدایت دی گئی۔

تمام بینکوں کو اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ ہینڈ ڈسپنسر رکھنے کی ہدایات دی گئیں۔ اسی طرح انگریزی اور مقامی ملیالم زبان میں ایک ایپ لانچ کیا گیا، جو بیماری سے بچنے کی ہدایات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ کا بھی کام دیتا ہے۔صوبہ کے سب سے بڑے شہر کوچی میں ماسک، ڈسپنسر، نیپکن اور دیگر ایسی اشیا ء کو باٹنے کے لیے دو ربورٹ تعینات کئے گئے ہیں۔ گو کہ وزیرا علیٰ خود کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ کے رکن ہیں، انہوں نے مارچ کے اوائل میں ہی صوبہ کے سبھی مذہبی رہنماوں کی میٹنگ طلب کرکے وبا کے تئیں بیداری پھیلانے اور اس سے نپٹنے کے لیے ان کی مد د طلب کی۔

صد فی صدخواندگی کے علاوہ جو چیز ہندوستان کے اس جنوبی صوبہ کو الگ کرتی ہے وہ  یہ کہ جنوبی ایشیا  میں پارلیامانی ڈیموکریسی اپنی اصل شکل میں صرف یہیں روا ں دواں ہے، دیگر علاقوں میں اس کو استحصالی طبقات نے آلودہ کرکے رکھ دیا  ہے  شاید یہی ایک وجہ ہے کہ اس صوبہ میں عوامی نمائندو ں کی وابستگی اور ان کا احتساب برقرار رہتا ہے۔

گو کہ کیرالہ ابھی تک پوری طرح محفوظ نہیں ہے، مگر وزیر اعلیٰ  نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، وہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک اور ہندوستان کے دیگر صوبوں کے لیے نذیر بن سکتے ہیں۔سچ ہے کہ کسی آفت یا وبا سے نپٹنے کے لیے اقتصادی طور پر مضبوط یا امیر ہونے سے زیادہ لگن اور عوام کے ساتھ وابستگی زیادہ ضروری ہوتی ہے۔