خبریں

کورونا وائرس: مُلا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی

 اِن علماء نے نہ صرف اُمت کو گمراہ کرنے کا کام کیا بلکہ ایسے بیانات اور اقدامات کی وجہ سے اسلاموفوبیا کی آگ کو مزید ایندھن بھی فراہم کیا ہے۔دائیں بازومیڈیا نے اس کو ‘کورونا وائرس جہاد’قرار دیا اور ہندوستان میں صحت عامہ کے بحران کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

جہاں دنیا بھر کی حکومتیں ، اِدارے، ماہرینِ طب اور ڈاکٹرس اس وقت کورونا وائرس کی وبا سے نپٹنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں وہیں برصغیر کے علمائے اکرام کی ایک کثیر تعداد اِس مسئلہ کی سنگینی کو ہی سمجھنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے لاکھوں معصوم جانیں داؤ پر لگ سکتی ہیں۔

کورونا وائرس جس کی شروعات مُلک چین کے شہر وُہان میں دسمبر 2019 کی ابتدا میں ہوئی ، آج دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالمی وبا  بن چکی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اِ س وقت  تقریباََ چار لاکھ معلوم متاثرین ہیں اور یہ تعداد بڑی تیزی کے ساتھ ہر لمحہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ ملک کے ملک لاک ڈاؤن کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر  میں معیشت شدید متاثر ہےاورایک عالمی بحران ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

اب ایسی صورت حال میں عالمی ادارہ برائے صحت اور مختلف  ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو کچھ گائید لائنس (ہدایات) فراہم کی ہیں جن میں ہردو انفرادی  اور اجتماعی ہدایات شامل ہیں۔

شہریوں سے کہا گیا ہے کہ سماجی  میل جول بالکل ہی نہ کریں اور گھروں میں  رضاکارانہ طور پرنظر بندی کا اہتمام کریں کیوں کہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سے  اس وبا پر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔

وائرس کے  سیال ننھے خطرات (ڈراپلیٹ سپریڈ) کے ذریعے لوگ اِس بیماری کا شکار ہوتے جاتے ہیں یعنی چھینکنے یا کھانسنے  پر منہ سے جو جراثیم نکلتے ہیں اس کے ذریعے سے یہ دوسروں تک پھیلتا ہے۔

یہاں تک کہ متاثرہ فرد کسی چیز کو چھولے   اور اسی چیز کو کچھ دیر بعد کسی اور نے چھو ا ہو،  تو اس فرد کے متاثر ہونے کے پورے امکانات موجود ہیں۔ چھونے سے پھیلنے کی وجہ سے ساری دنیا اس وبا کی لپیٹ میں آرہی ہے۔مختلف فیہ ماہرینِ صحت آگے آنے والے  بھیانک بحران  سے آگاہ کرتے ہوئے عوام سے اِن ہدایات پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تلقین فرمارہے ہیں۔

ایسے نازک حالات میں بر صغیر کے علماء کا  کردار انتہائی  غیر ذمہ دارانہ اور غیر مجتہدانا  واقع ہوا ہے۔ جس طرح کے بیانات اور تجاویز ان کی طرف سے آرہی ہیں، وہ نہ صرف غیر حقیقی (و غیرسائنسی)بلکہ مجرمانہ بھی ہیں۔پاکستان کے مفتی اعظم مولانا منیب الرحمٰن کے مطابق  ؛نماز جمعہ کو کسی بھی صورت میں منسوخ  یا معطل نہیں کیا جاسکتا۔جس کے لئے وہ جنگ میں نماز ِباجماعت کے احکام کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ؛اگر سامنے دشمن بھی کھڑا ہو تب بھی نماز با جماعت معطل نہیں ہوگی۔

انہوں نے نماز با جماعت کے ذریعے وائرس کے پھیلنے کو وَہم و گمان سے تشبیہ دی۔اس قسم کا بیان مفتی تقی عثمانی نے بھی دیا کہ گمان کی بنیاد پر مسجد میں نماز با جماعت کو معطل نہیں  کیا جاسکتا۔امیر تبلیغی جماعت مولانا سعد کاندھلوی  نے کہا کہ؛کوروناوائرس کے نام پر مُسلم تہذیب پر حملہ ہورہا ہے،  یہ وقت مسجدوں کو آباد کرنے کا ہے، نہ کہ مسجدوں کو چھوڑنے کا! اور طنزیہ انداز میں کہا کہ محض ڈاکٹروں کی باتوں میں آکر مساجد میں نمازِ باجماعت ، ملاقاتیں اور ملنا جلنا چھوڑنا مضحکہ خیزہے۔

صوفی علماء کونسل کے صدر صوفی سید محمد خیر الدین قادری نے مسلمانوں سے مسجد میں جمع ہونے کی گزارش  کی اور اجتماعی اعتکاف کی تلقین فرمائی۔

اسی طرح مولانا انظر شاہ قاسمی کے مطابق؛اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے گھر بُلا کر ذلیل و خوار نہیں کرتا، اور آج اگر مسجدوں کو تالے لگ جائیں گے تو  کل  حکومت انہیں ہمیشہ کے لئے تالے لگا دے گی۔

ان بیانات کو سننے اور پڑھنے کے بعد  ایک ذی عقل انسان نہ صرف حیرت میں پڑ جاتا ہے  بلکہ مایوس بھی ہوجاتا ہے۔جن کا نہ ہی  قرآن اور حدیث سے کوئی ثبوت ملتا  ہے اور نہ ہی وہ پیغمبرکےمزاج سے کوئی میل کھاتے ہیں۔ ایسے خیالات اور بیانات کی وجہ سے جو صورت حال رونما ہوئی ہے وہ بہت ہی تشویش ناک اور ڈراؤنی ہے؛

ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں کوروناوائرس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں زیادہ ترمسلمان بزرگان شامل ہیں،اور نیشنل ہیلتھ سروِس نے مسلمان بزرگوں کو سب سے زیادہ غیر محفوظ قرار دیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ مسجد میں مسلمانوں کا جمع ہونا بتا یا جارہا ہے۔

 ایران کا مقدس شہر ‘قم’کورونا وائرس کی وبا کا مرکز بن کر ابھرا  جہاں تادم ِتحریر 1200 افراد اس وبا سے متاثررپورٹ کئے گئے۔قم میں سٹیلائٹ تصاویر کے ذریعے اجتماعی قبور کی نشان دہی کی گئی لیکن اس کے باوجود مقامی علماء کی جانب سے مزاروں کو بند کرنے میں مزاحمت دیکھی جارہی ہے۔

 ملائیشیا کے 60 فیصد متاثرین  وہاں کے صدر مقام کوالا لمپور میں ہونے والے چار روزہ تبلیغی اجتماع سے منسلک ہیں۔ اس اجتماع کی وجہ سے اب تک محض جنوب مشرقی ایشیاء میں  جملہ 1000 سے زیادہ متاثرین پائے گئے۔

ملائیشیاء کے سانحے کے اور حکومت کی وارننگ کے بعد بھی رائے وِنڈ ، لاہور میں ہوئے تبلیغی اجتماع میں ڈھائی لاکھ افرادنے شرکت کی ۔ شرکاء میں تین فلسطینی اور چار کرگزستانی بھی تھے   جو بعد میں متاثر پائے گئے اور پاکستان کے متعدد علاقوں سے اس اجتماع  کی وجہ سے متاثر ہونے والوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

انڈونیشیاء سے کریم نگر ، انڈیا  تک جماعت میں نکلے ہوئے گروہ  میں ایک متاثر فرد تھا، جس کی وجہ سے سات اور لوگ متاثر ہوئے۔ اس کے باوجود بھی ریاست میں غیر ملکی جماعتوں کی آمد و رفت جارہی ہے۔تادم تحریر کریم نگر کا ایک 23 سالہ مقامی مسلم نوجوان بھی متاثر پایا گیا اور کریم نگر کے کچھ محلوں کو ،ریڈ زون قرار دے دیا گیا ہے۔

 ایروڈ، تامل ناڈو میں تھائی لینڈ سے آئی ایک جماعت میں 2 افراد متاثر تھے جس کے بعد دو بڑے مسلم محلوں کا لاک ڈاؤن کردیا گیا، اور 130 گھروں کو الگ تھلگ(کوارنٹائن)کردیا گیا ہے۔

  شمالی ہند میں بھی اس قسم کی کئی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

 اِن علماء نے نہ صرف اُمت کو گمراہ کرنے کا کام کیا بلکہ ایسے بیانات اور اقدامات کی وجہ سے اسلاموفوبیا کی آگ کو مزید ایندھن بھی فراہم کیا ہے۔

دائیں بازومیڈیا نے اس کو “کورونا وائرس جہاد”قرار دیا اور ہندوستان میں صحت عامہ کے بحران کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔

مزید یہ کہ انہی علماء نے امت کے وہ ذمہ دار حضرات و علماء جنہوں نے اس بحران میں بروقت صحیح رہنمائی اور اقدامات کئے، اُن کے خلاف غلط فہمیاں پھیلائیں اور بد زبانیاں کیں۔بلکہ انہیں مسلمانوں کو نماز سے روکنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان پر قرآن کی وہ آیتیں منطبق کیں جو اللہ نے دراصل کافروں کے لئے اِرشاد فرمائی تھیں۔!!!

گو کہ سنت رسول اور اسلامی تاریخ میں کورونا وائرس جیسی خطرناک وبا کی کوئی تمثیل (اِس حوالے سے کہ یہ محض چھونے سے بھی پھیلتی ہے) نہیں ملتی  لیکن کچھ متعلقہ واقعات پر غور و فکر کرنے سے علماء کے اِن احمقانہ بیانات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔

اللہ کے رسول نے برسات کی راتوں میں ، سردی میں اور خوف کے عالم میں نمازوں کو اپنے گھروں سے ادا کرنے کی تلقین فرمائی ، یہاں تک کہ نماز جمعہ بھی۔ بخاری اور مسلم میں بہت ساری روایتیں اس حوالے سے ملتی ہیں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا:”الا صلو فی الرحال” کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا۔
(Bukhari 632)

ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھرمؤذن کو حکم دیا اور جب وہ “حى على الصلاة ” پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو”الصلاة في الرحال “کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کوحیرت کی وجہ سےدیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انہوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم
نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ”حى على الصلاة ” کہہ کر تمہیں باہر نکالوں اور تکلیف میں مبتلا کروں۔  اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انہوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔

(Bukhari 668)

اسلامی تاریخ میں طاعون عمواس کا واقعہ قابلِ ذکر ہے، جو 18 ہجری میں پیش آیا جس مسلم افواج شام میں رومیوں کے خلاف جنگ کررہی تھیں اس وقت وہاں طاعون کی وبا پھیلی جس کی وجہ سے 25 ہزار اموات ہوئیں۔

جس میں حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت یزید ابن ابو سفیان اور دیگر صحابہ اکرام بھی شہید ہوئے۔ اُس وقت حضرت عَمر بن العاص نے فوج کی کمان سنبھالی اور لوگوں کو وادیوں میں منتشر ہونے کا حکم دیا اور ایک جگہ جمع ہونے سے گریز کرنے کی تلقین فرمائی۔ انہوں نے طاعون کوآگ سے تشبیہ دی اور کہا کہ طاعون  لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوگا اگر وہ دور دور رہیں۔ جب اس کی اطلاع حضرت عُمر کو ہوئی تو انہوں نے اِس پالیسی کو مناسب سمجھا۔ اُسی طاعون کے دوران  حضرت عُمر نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے اصرار کے باوجود بھی دَمِشق کو جانے کا ارادہ ترک کردیا اور اِس اَمر کو سمجھانے کے لئے ایک بہت خوبصورت تشبیہ بھی  دی تھی۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

ایسا ہی ایک واقعہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب   بذل الماعون في فضل الطاعون میں ملتا ہے جس میں وہ قاہرہ میں 833 ہجری میں طاعون کی وباء کا ذکر کرتے ہیں  جب روزانہ اوسطاََ 40 لوگ اس وباء کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہےتھے ۔چنانچہ شہر  کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ شہر کے باہر جاکر صحراء میں اجتماعی دعاء کی جائے۔ وہاں انہوں نے کئی ہفتے گزار  کر اجتماعی دعااور عبادات کا اہتمام کیا ، لیکن واپس شہر پہنچنے کے بعد مرنے والوں کی تعداد میں اچانک کئی گنا اضافہ ہوگیااور روزانہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔ یعنی اس معاملے میں اجتماعی شکل میں جمع ہونا دراصل مزید ہلاکت کا سبب بنا۔اس قسم کا ایک اور واقعہ سال 794 میں دَمِشق میں بھی  پیش آیا۔ اِن ساری روایات اور واقعات کی روشنی میں ہمارے لئے مندرجہ ذیل اسباق قابل غور ہیں؛

اول تو یہ کہ جب ایسی ناگہانی صورت حال پیش آئے جیسے طاعون یا وبا،  یا شدید برسات ، تو ایسی حالت  میں انسانی جان کا تحفظ سب سے بڑی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ انسانی جان کے نقصان سے بچا جاسکے۔ چنانچہ اللہ کے رسول نے ایک مومن کی جان کی حُرمت کو کعبتہ اللہ کی حرمت سے بھی زیادہ قرار دیا ہے۔

اللہ کے رسول کے عمل سے اِس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ بارش اور شدید ٹھنڈ جو کہ عارضی واقعات ہیں، اور جن میں جانوں کے نقصان کا کوئی اِمکان نہیں ، بلکہ کچھ مشقت اور مشکلات درپیش آتی ہیں، اُن میں بھی اللہ کے رسول نے نماز جمعہ کو گھروں پر ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اب تصور کیجئے کہ جہاں مسجد میں لوگوں کے جمع ہوجانے سے اِس بات کو پورا اندیشہ ہو کہ وبا پورے معاشرے میں پھیل سکتی ہےتو نمازوں کا گھر پر اہتمام کرنا عین سنت رسول کے مطابق ہے۔

تیسری بات یہ کہ طاعون کے حالات میں صحابہ نے اجتہاد کیا اور وہ تدابیر اختیار کیں جو اُس مقام اور حالات کے لحاظ سے موزوں سمجھی گئیں۔ ایسی ہی مثالیں سیرت رسول سے بھی ملتی ہیں، جب اللہ کے رسول نے جنگ احد کے دوران 2  زِرہ  پہننے کا اہتمام کیا اور جنگ احزاب کے موقع پر حضرت سلمان فارسی  کے مشورے پر خندق کھودنے کی تدبیر اختیار فرمائی۔ اِس کا مطلب سنت نبوی کا تقاضہ یہ ہے  کہ انسانی جان کے تحفظ کے لئے سب سے بہترین تدبیر اختیار کی جائے اور وقت کی مروجہ حِکمت عملیوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔

 مزید یہ کہ وباء یا طاعون کی حالت میں  سماجی میل جول نہ رکھنا  بلکہ گھروں میں مقید رہنا ، لوگوں کا منتشر ہوجانا   اور کسی بھی گروپ میں جمع ہونے سے اِعراض برتنا ، ناگزیر عمل ہے۔حضرت عَمر بن العاص کے فرمان سے اِس بات کا بھی اِشارہ ملتا ہے کہ ایسی حالت میں مسلمان اجتماعی شکل میں نہ رہیں اور  یہی تاویل نماز باجماعت یا کسی بھی اجتماع کے لئے کی جانی چاہئے۔

جن واقعات کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اُن میں اور آج کے حالات میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ آج کورونا وائرس کے پھیلنے کے سارے ذرائع سے ہم واقف ہیں، مثال کے طور پر چھونے سے، چھینکنے سے یا کھانسنے سے پھیلتا ہے وغیرہ۔ پُرانے دور میں وباکی اصلی وجہ اور پھیلنے کے ذرائع سے واقفیت کم ہی ہوتی تھی۔ آج جب کہ  یہ معلومات بہم ہیں تو اجتہاد اور ماہرینِ صحت کے مشوروں کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے نہ کہ جذبات کی بنیاد پر۔ اِ س قسم کے سائنسی و طبی علوم ،ماضیِ قریب تک موجود نہیں تھے چنانچہ اس مسئلے پر اسلاف میں فقہی مباحث کا ملنا تقریباََ نا ممکن ہے ، مزید برآں یہ کہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کا آنا ، ناگزیر ہے  اس لئے مستقل اجتہاد کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

 ابن حجر عسقلانی نے جن واقعات کو نقل کیا ہے اُن سے یہی سبق ملتا ہے کہ  اجتماعی عبادت کی غرض سے کی گئی کوشش بھی دراصل ہلاکت کا باعث بنی کیوں کہ پرہیز اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کئے گئے جو بیماری کو مزید پھیلانے کا باعث بنے ۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی قدرت اور اُس کے بنائے ہوئے قوانینِ فطرت  کی نفی میں کی گئی عبادت کارآمد ثابت نہیں ہوتی۔

 کوروناوائرس کو وہم اور گمان سے تشبیہ دینا انتہائی احمقانہ فعل ہے۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرس اور ماہرین صحت  کی تحقیق اور تادم تحریر اٹھارہ ہزار جانوں کا نقصان یہی ثابت کرتا ہے کہ اب گمان اور وہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اِس معاملے میں ملائیشیاء، برطانیہ ، پاکستان اور ہندوستان میں جو متاثرہوئے ہیں   اُس کی بڑی وجہ مساجد میں لوگوں کا جمع ہونا  اور مستقل اجتماعات کا منعقد ہونا ہے۔

 ایسے حالات میں لوگوں کو مسجد بھرنے کی دعوت دینا، مصافحہ کرنے اورملنے جلنے پر ابھارنا انتہائی مجرمانہ اِقدام ہے اور اِس طرح کے مشورے دینے والے خدا کے سامنے معصوم جانوں کے سلسلے میں جوابدہ ہوں گے!

علاوہ ازیں ،اتنے بگڑتے حالات کے باوجود بھی کچھ علماء اور تنظیموں کی جانب سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ جن  علاقوں میں حکومت نے کرفیو نافذ کیا ہے  وہاں پر نماز باجماعت کو باقی رکھنے کی  تدبیریں کی جائیں اور مقامی اِمام، مؤذن اور چند اہل محلہ، مسجد میں پانچوں وقت اذان کے ساتھ نماز باجماعت ادا کریں اور باقی لوگ گھر پر ادا کریں۔ افسوس کہ یہ علماء اور دینی قیادت اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں  کہ ایک بھی متاثرہ شخص سارے گلستان کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔

یہاں تک کہ متاثرہ شخص نے مسجد میں جس مصلے یا جائے نماز پر نماز ادا کی ہو، اُس مقام پر کوئی اور بھی سجدہ کرے تو اُس کے بھی متاثر ہونے کے پورے امکانات ہیں۔ تاہم یہ تدبیر صرف اُسی صورت میں کارگر ہوسکتی ہے کہ اگر مسجد میں نماز ادا کرنے والے سارے افراد کو اِس وبا کے ختم ہونے تک مسجد میں ہی الگ تھلگ (کوارنٹائن)کردیا جائے،  نہ کسی کو باہر جانے دیا جائے  اور نہ ہی کوئی باہر سے اندر آسکے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم ایماندارانہ محاسبہ کریں تو ایسی اپیلوں کی عوام کے بیچ کوئی خاص حیثیت نہیں اور عوام اُن کی دھجیاں اُڑاتی نظر آتی ہے ، اور یہ  کون طے کرے گا کہ وہ “چند اہل محلہ” کون ہوں گے اور اُنہیں کیسے چُنا جائے گا!؟

اِس ساری گفتگو کا نتیجہ یہی نکل آتا ہے کہ  مسلم علماء اپنی عقلِ سلیم کا ثبوت دیں، صحت کے ماہرین سے  نصیحت لیں، امت اور ملک کو مزید آزمائش میں مبتلا ہونے سے بچالیں۔ ورنہ اس کا انجام یہی ہوگا کی معصوم جانیں  بِلا وجہ موت کے گھاٹ اتریں گی، لوگ اسلام اور اسلامی تعلیمات سے مزید متنفر  ہوں گے ، اور اسلاموفوبیا کی آگ میں مزید اضافہ ہوگا۔ورنہ…

لمحوں نے خطا کی ، صدیوں نے سزا پائی