خبریں

کیا ہے ہنٹا وائرس، جس نے چین میں ایک شخص کی جان لے لی؟

امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول کے مطابق، ہنٹا وائرس نیا نہیں ہے اور اس کا پہلا معاملہ 1993 میں آیا تھا۔ یہ چیزوں کو کترنے والے حیوانات جیسے کہ چوہے، گلہری وغیرہ  سے پھیلتا ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: پوری دنیا میں کو رونا وائرس پھیلنے کے بیچ ہنٹا وائرس نام کے ایک اور خطرناک وائرس کے انفیکشن کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ چین کے انگریزی اخبار گلوبل ٹائمس نے رپورٹ کیا ہے کہ ہنٹا وائرس کی وجہ سے یُنان ریاست میں ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔

امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے مطابق، ہنٹا وائرس نیا نہیں ہے اور اس کا پہلا معاملہ 1993 میں آیا تھا۔ یہ چیزوں کو کترنے والے حیوا نات جیسے کہ چوہے اور گلہری سے پھیلتا ہے۔ سی ڈی سی نے بتایا ہے کہ انسانوں میں ہنٹا وائرس خاص کر دیہی حلقوں میں پھیلتا ہے، جہاں پر جنگل، کھیت جیسی جگہوں میں ان متاثرہ حیوانات کے رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ہنٹا وائرس کیا ہے؟

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کےمطابق، ہنٹا وائرس بنیادی طور پر چیزوں کو کترنے والے حیوانات کے ذریعے پھیلنے والا وائرس ہے۔ کوئی بھی شخص اس وائرس سے چوہوں، گلہری وغیرہ کے رابطہ میں آنے پر متاثر ہو سکتا ہے۔یہ وائرس پلمونری سنڈروم نام کی بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ امریکہ میں اس وائرس کو نیو ورلڈ ہنٹا وائرس اور یورپ و ایشیا میں اولڈ ورلڈ ہنٹا وائرس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ وائرس انسان  سے انسان کے بیچ نہیں پھیلتا ہے۔ حالانکہ چلی اور ارجنٹائنا میں ایسے کمیاب معاملے سامنے آئے ہیں، جہاں اینڈیزوائرس نامی ایک ہنٹا وائرس سے متاثرہ  مریض کے رابطہ  میں آنے پر لوگ متاثر ہوئے۔

کیاعلامات ہیں؟

متاثرہ حیوانات کے پیشاب، پاخانہ یا تھوک  کے رابطہ میں آنے کے ایک سے آٹھ ہفتہ  کے بیچ انسان  میں انفیکشن کے علامت دکھ سکتے ہیں۔ اس کی علامتوں میں بخار، تھکان، عضلات میں درد، سر درد، ٹھنڈ لگنا اور پیٹ کے نیچے حصوں میں درد ہونا شامل ہے۔انفیکشن  ہونے کے چار سے دس دن میں کچھ ہلکی علامت جیسے کہ کھانسی  آنا اور سانس میں تکلیف ہونے کی شروعات ہو سکتی ہے۔

کیا ہے علاج؟

سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق، اب تک اس کی ویکسین تیار نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی کوئی طے علاج ہے۔ ایسے مریضوں کو خصوصی  پرہیز اور بچاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور آکسیجن تھیراپی دی جاتی ہے۔ جتنی جلدی معاملہ پکڑ میں آتا ہے اتنا ہی بہتر ہے۔جتنی جلدی مریض کو آئی سی یو میں لایا جا سکے اتنا بہتر ہے۔اگر کوئی مریض پوری طرح سے اس وائرس کی گرفت میں آ جاتا ہے، تو اس کے بچنے کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔