خبریں

کورونا وائرس پھیلانے کے لیے مذہبی اقلیتوں کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط: امریکی سفیر

امریکی سفیر سیم براؤن بیک نے کہا کہ دنیا بھر کی سرکاروں کو کو رونا وائرس کی پیدائش کو   لےکر الزام تراشیوں کے کھیل کو شدت کے ساتھ خارج کر دینا چاہیے۔

سمں براؤن بکا:(فوٹو: رائٹرس)

سمں براؤن بکا:(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: امریکہ نے کو رونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مذہبی اقلیتوں  پرالزام  لگانے کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کی سرکاروں کو اس کی کی پیدائش کو   لےکر الزام تراشیوں کے کھیل کو شدت کے ساتھ خارج کر دینا چاہیے۔بین الاقوامی مذہبی آزادی  کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر سیم براؤن بیک نےمذہبی اقلیتوں  سے سماجی دوری پر عمل  کرنےکی اپیل کی اور دنیا بھر میں، خاص طور سے ایران اور چین میں پرامن مذہبی  قیدیوں کو رہا کرنے کی مانگ کی۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے کو رونا جہاد ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے کے بارے میں ہندوستانی حکام  سے بات کی، جو یہ اشارہ  دیتا ہے کہ یہ وائرس مسلمانوں نے پھیلایا ہے، اس پر انہوں نے کہا، ‘میں نے اب تک ہندوستانی حکام  سے بات نہیں کی ہے۔’براؤن بیک کے یہ تبصرے نئی دہلی کے نظام الدین علاقے میں تبلیغی جماعت کےاجتماع کے پس منظر میں  میں آئے ہیں جوہندوستان میں کو رونا وائرس پھیلانے کااہم مرکز بن کر ابھرا۔

براؤن بیک نے مذہبی اقلیتوں پر کو رونا وائرس (کووڈ 19) کے اثر پر کانفرنس کال کے دوران صحافیوں  سے کہا، ‘میرا کہنا ہے کہ مذہبی گروپس کو سماجی دوری بنائے رکھنی چاہیے۔ ہمیں یہ کرنے کی ضرورت ہے۔’ایک سوال کے جواب میں براؤن بیک نے کہا کہ امریکہ کووڈ 19 وائرس کے لیےمذہبی اقلیتوں پرالزام  لگانے کی سرگرمیوں  پر نظر رکھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘بدقسمتی  سے یہ مختلف جگہوں  پر ہو رہا ہے۔ سرکاروں کا ایسا کرنا غلط ہے۔ سرکاروں کو یہ بند کرنا چاہیے اور واضح طور پر کہنا چاہیے کہ یہ کو رونا وائرس کا ماخذ نہیں ہے۔ اس کے لیے مذہبی اقلیتی کمیونٹی ذمہ دار نہیں ہیں۔’انہوں نے کہا، ‘ہم جانتے ہیں کہ وائرس  کہاں سے پیدا ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ عالمی وبا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا ہے اور اس کے لیے مذہبی اقلیت ذمہ دار نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی  سے ہم دنیا کے مختلف مقامات پر الزام تراشیاں دیکھ رہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ سرکاریں شدت سے اس کو خارج کر دیں گی۔’

براؤن بیک نے سرکاروں سے مشکل کی اس گھڑی میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کام کرنے اور یہ یقینی بنانے کی اپیل کی کہ انہیں ضروری وسائل  اور مدد ملے۔بتا دیں کہ دہلی کے نظام الدین ویسٹ میں واقع ایک مرکز میں 13 مارچ سے 15 مارچ تک اجتماع ہوئے تھے، جن میں سعودی عرب، انڈونیشیا، دبئی، ازبیکستان اور ملیشیا سمیت کئی ممالک کے مسلم مذہبی مبلغین نے حصہ لیا تھا۔ ملک بھر کے مختلف حصوں سے سینکڑوں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے بھی اس میں حصہ لیا تھا۔

ان جلسوں میں حصہ لینے والے کچھ لوگوں میں کورونا وائرس انفیکشن پھیل گیاہے۔ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی مرکز کے مذہبی جلسہ میں شامل لوگوں کی پہچان کی جا رہی ہے۔معاملہ سامنے آنے کے بعد پورے علاقہ کو سیل‌کر دیا گیا ہے، جس میں تبلیغی جماعت کا صدر دفتر اور رہائش گاہ شامل ہیں۔ علاقے کے ان ہوٹل کو بھی سیل‌کر دیاگیا ہے جن میں جماعت کے لوگ ٹھہرے تھے۔ مرکز سے لوگوں کو ہسپتالوں اور کورنٹائن مراکز میں بھیج دیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تبلیغی جماعت کے دہلی میں ہوئے اس مذہبی انعقاد کی وجہ سے یہ ملک میں کورونا وائرس کے سب سے بڑےمرکز کے طور پر ابھرا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ملک میں کورونا وائرس انفیکشن کے کل معاملوں کا پانچواں حصہ اسی اجتماع  سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کل 53 لوگوں کی موت میں سے کم سے کم 15لوگ اس انعقاد سے جڑے ہوئے تھے۔

ان 15 میں سے نو لوگوں کی موت تلنگانہ اور ایک ایک شخص کی موت دہلی،گجرات، کرناٹک، ممبئی، کشمیر اور تمل ناڈو میں ہوئی ہے۔جمعرات کو دہلی میں اس وبا کے انفیکشن کے معاملے دو گنے ہو گئے۔ ان میں سےزیادہ تر وہ لوگ ہیں، جن کو 31 مارچ اور ایک اپریل کو نظام الدین ویسٹ واقع تبلیغی جماعت کے مرکز سے نکالا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، راجدھانی دہلی میں آئے 141 نئے معاملوں میں سے 129 لوگ نظام الدین مرکز سے نکالے گئے تھے، جو تبلیغی جماعت کا صدر دفتر ہے اور جہاں پچھلے مہینے ہوئے مذہبی انعقاد میں چار ہزار سے زیادہ لوگ شامل ہوئے تھے۔دہلی میں کل 293 معاملوں میں سے 182 اس انعقاد سے جڑے ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، اب تک پورے ملک میں کورونا وائرس 2069 معاملے سامنے آ چکےہیں۔ ان میں شامل 155 لوگ ٹھیک ہو چکے ہیں، جبکہ 53 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)