خبریں

تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کے خلاف پرانی نفرت کا حملہ

مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگ‌کر رہے ہیں۔ اس ایک احمقانہ  حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کےخلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر مسلمانوں کی  مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

اچھا بتاؤ، تم اب جماعت کا دفاع کیسےکرو‌گے؟ ‘، میرےوالد نے کل صبح فون پر مجھ سے پوچھا۔ نہیں، وہ طنز نہیں کر رہے تھے اور نہ مجھےچیلنج دے رہے تھے۔

اب جب میں خود زندگی کی ڈھلان پر ہوں، کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں یا غیرہندوؤں کے متعلق کھلی نظر بنا ان کے نہ ہوتی۔

آج تک میرے لئے یہ حیران کن  ہے کہ 1962 میں آسام کے سلچر سے بہار کے سیوان آنےپر انہوں نے رہائش کے لئے شیخ محلہ کیوں چنا۔ اسلامیہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹرہاشم صاحب کے مکان میں بطور کرایہ دار رہنے کا فیصلہ انہوں نے کیوں کیا؟

میرے والد کو وہ سہولیت نہ تھی جو مجھے ہے۔ یعنی دیوگھر کے پنڈت سماج میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے ہندوؤں سے الگ سماج سے تعارف کا موقع ان کو نہ تھا۔

نوکریاں بدلتے ہوئے بہار کے سبور، بنگال کے براکر، آسام کے سلچر سے ہوتےہوئے جب وہ سیوان پہنچے تب تک بھی ان کے گہرے دوستوں میں غیر ہندوؤں کی تعدادزیادہ نہ ہوگی۔ کم سے کم میں نے ان سے اس حوالے سے وہ نام نہیں سنے جو غیر ہندوہیں۔

سال 1962 کی دوری 1947 سے آج کے مقابلے بہت کم تھی۔ قیام پاکستان کی وجہ سے ، مسلمانوں سے دوری  کی’خاطر خواہ’ وجوہات تھیں۔ والد کی عمر بھی کم ہی تھی۔

اسی لئے میں ہمیشہ حیران رہتا ہوں کہ ایک ہندو نوجوان ٹیچر ایک انجان قصبے میں کرایہ  پر رہنے کا فیصلہ کیوں کر کر سکا؟

یہ مضمون حالانکہ  والد کی یادداشت نہیں ہے۔ ان کے سوال اور اس کے بعد ہوئی بات چیت سے جڑا ہے۔

جب انہوں نے پوچھا کہ میرے پاس جماعت کے حق  میں کیا دلیل ہے تو ان کے دل میں چل رہی الجھن کو میں سن پا رہا تھا۔

 کیوں، میں کیوں جماعت کا دفاع کروں‌گا؟ ‘، میں نے جواب دیا۔ آج جماعت کہنے کا مطلب تبلیغی جماعت ہے حالانکہ جماعتیں اور بھی ہیں۔

کیا اس میں کوئی شک کی گنجائش ہے کہ جب دوسرے ممالک میں خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی تو محتاط نہ ہونا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں؟

تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو یہ گھنٹی سننی چاہیے تھی۔ خاص طورپر اس لئےکہ کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملے باہر کے ممالک میں پائے گئے تھے۔

چین نے شروعاتی ہچکچاہٹ کے بعد اس کی سنجیدگی کو سمجھ لیا تھا اور ہندوستان کی حکومت دوسرے ممالک میں گئے ہندوستانیوں کو واپس لانے کا خاص انتظام کر رہی تھی۔

ابھی بھی سرکاری طور پر اس کو آفت نہیں مانا گیا تھا، بلکہ ذمہ دار وزیراور حکمراں جماعت کے رہنما تو حزب مخالف جماعت کے رہنما راہل گاندھی کا مذاق اڑارہے تھے جو بار بار حکومت کو اس وائرس کے انفیکشن کے خطرے سے آگاہ کر رہے تھے۔

تبلیغی جماعت کو حکومت ہند کے حکم کا انتظار کئے بغیر پہلا کام کرنا تھاباہر سے آنے والوں کو منع کرنا۔

ان کے غیر ملکی مہمان انفیکشن کے ماخذ ہو سکتے تھے، یہ سمجھنے کے لئے ان کوکسی سرکاری سرکلر کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔

وہ ٹکٹ کٹا چکے تھے، حکومت ہند نے ہی ان کو ویزا دیا تھا، پروگرام کافی پہلے سے طے تھا جیسی دلیلیں کمزور ہیں۔

پروگرام رد کرنے کی قیمت بعد میں چکائی جا رہی قیمت کے مقابلے ہر طرح سےکم ہوتی، یہ تو اب معلوم ہو ہی رہا ہے۔

علاوہ اس کے کہ جماعت کے ممبروں، ان کے رشتہ داروں اور ان کے رابطہ میں آئےلوگوں کو اب اس انفیکشن کا خطرہ تو جھیلنا ہی ہے، اس کی وجہ سے جماعت کی جو بدنامی ہو رہی ہے، اس سے نکل پانا ان کے لئے بہت مشکل ہوگا۔

جماعت کے امیر نے اپنے پیروکاروں کو اگر کہا کہ اللہ ان کا حافظ ہے اور اس انفیکشن سے ان کو کوئی خطرہ نہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ یہ حماقت اکیلے ان کی ملکیت نہیں۔

اچھے مسلمان نہ ہونے کی سزا خدا دے رہا ہے، یہ بات دوسرے مواقع پر بھی سنی گئی ہے۔ اس کو بیوقوفی‌کر ہنسی میں اڑا دیا جا سکتا تھا اگر اس سے پیدا ہونےوالی لاپروائی اتنی مہنگی نہ ہوتی۔

اس حساب سے مسلمان کے ساتھ جو بھی ناانصافی ہو رہی ہے، وہ بھی اللہ کی ہی مرضی ہے۔ اب جب جماعت کے ممبر بھی متاثر ہو رہے ہیں تو کیا اس کو بھی اللہ کی مرضی کہہ‌کر وہ خاموش ہو جائیں‌گے یا اس وجہ سے اپنے امیر کی عقل پر ان کو کچھ شک بھی ہوگا؟

کیونکہ کیا وہ اچھے مسلمان نہیں؟ پھر اللہ نے ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟کیا ان کا امتحان لینے کے لئے؟

اس کے بعد اب کچھ اور سوال ہیں۔ جماعت کے چیف بار بار کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے جب جب جو کہا، انہوں نے کیا۔

اس کا مطلب یہ ہے، اور یہ دوسرے سیاق میں بھی اتنا ہی ٹھیک ہے کہ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمارے لئے اطلاع اور سمجھداری کا آخری تصدیق شدہ ماخذصرف حکومت یا ریاست ہے۔

وہ بھی جو ایشور کو اعلیٰ ترین مانتے ہیں، آخرکار سرکاری عقل کے مطابق ہی اپنی زندگی کے فیصلے لیتے ہیں۔

ریاست کا یہ آفاقی اور ہمہ گیر اثر خطرناک ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ریاست بھی منطقی اور سائنسی بنیاد پر فیصلہ نہیں لیتی۔

نہ وہ ہمیں ساری اطلاع دیتی ہے۔ وہ اطلاع خود کو محفوظ رکھنے کے لحاظ سے ہی جاری کرتی ہے۔ اس کا مفاد اور مفاد عامہ ہمیشہ ایک نہیں ہوتے۔ اگر ہم آزادانہ شعورسےکام نہ لیں تو سرکاری عقل ہماری حفاظت نہیں کر سکتی۔

لیکن ہم نے دوسرے کم خطرناک مواقع پر بھی دیکھا ہے کہ وہ بھی، جن کاکاروبار عقل وشعور سے جڑا ہے، بنا سرکار کے سوچ نہیں پاتے۔

مثلاً، سرد لہر میں اسکول تب تک بچوں کو روکتے نہیں جب تک حکومت نہ کہے۔اس وقت بھی اگر حکومت خاموش رہتی تو یونیورسٹیوں میں کلاسز چلتی ہی رہتیں۔ تعلیمی اداروں نے خودسے کوئی پہل نہیں کی۔

سماج کے ذہن  کا سرکاری کرن ہمیں ایسے سوال پوچھنے نہیں دیتا۔ مثلاً، یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر انفیکشن کا خطرہ تھا تو شادیوں اور مذہبی مواقع پر ہجوم پراسی وقت روک کیوں نہیں لگائی گئی جب باقی ہجوم پر لگا دی گئی تھی؟

احمد آباد کے وہ لوگ، جو دہلی میں تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شامل ہوئےتھے (فوٹو : پی ٹی آئی)

احمد آباد کے وہ لوگ، جو دہلی میں تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شامل ہوئےتھے (فوٹو : پی ٹی آئی)

انفیکشن تو کسی بھی گروہ میں ہو سکتا تھا؟ پھر شادی اور مذہبی انعقاد کیوں محفوظ مانے گئے؟

ظاہری طور پر حکومت عوام کی جذباتی دنیا سے الجھنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ایسا کرکے حکومت خود کو بچانا چاہتی ہے۔

معلوم پڑا کہ مہاراشٹر حکومت نے ایسے ہی ایک ہجوم کی منظوری رد کر دی تھی۔ پھر دہلی پولیس نے، جو مرکزی حکومت ہی ہے، کیوں جماعت کے ہجوم کی منظوری واپس نہیں لی؟

ڈھیر سارے پروگرام  ہو رہے تھے، اس لئے جماعت سے سوال کیوں، یہ کہنا بیوقوفی سےزیادہ کچھ نہیں۔ آپ جس کے لئے ذمہ دار ہیں، اس کے بارے میں آپ سے ہی سوال کیا جائے‌گا۔

جماعت صفر میں نہیں کام کرتی۔ اس کے کام کا اثر غیرجماعتی مسلمانوں اور غیرمسلمانوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس اجتماع کا بھی پڑنا تھا، یہ تو اب خبروں سے ظاہر ہے۔

جماعت کے امیر نے انفیکشن سے بچنے کے لئے اب خود کو تنہائی میں محفوظ کر لیاہے۔ ان کا یہ فیصلہ دنیاوی عقل کی وجہ سے لیا گیا ہے۔

شاید اس ایک واقعہ سے ان کے پیروکار کچھ سبق لے سکیں‌گے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں۔

مجرم قرار دیےجانے کے بعد بھی مذہبی رہنماؤں میں ان کے پیروکاروں کی  عقیدت کم نہیں ہوتی۔ وہ ایک الگ دنیاکے باشندہ ہوتے ہیں۔

یہ مضمون جماعت کے بارے میں نہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ جماعت ہندوستان کےمسلمانوں کے ایک چھوٹے سے حصے میں ہی مؤثر ہے۔ یہ ایک گم سم سماج ہے جو دنیا کےمعاملوں سے ضرورت نہیں رکھنا چاہتی۔

اس وجہ سے جماعت کبھی بھی کسی سیاسی سوال پر کچھ بولتی ہی نہیں۔ آپ نےجماعت اسلامی ، جمعیت علماء ہند جیسی تنظیموں کو سیاسی سوالات پر بات کرتے ہوئےسنا ہوگا ، لیکن تبلیغی جماعت اس طرح کے معاملات کو اپنے لئے قابل  غور نہیں سمجھتی ہے۔

دین یا ایمان، نماز کی پابندی، اذکار ، ورد، اکرام مسلم یعنی مسلمانوں کی عزت کرنا اور مذہب کی تشہیر کرنا، یہی تبلیغ ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیزغیر متعلق ہے۔

گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا بابری مسجد کا انہدام، یا مسلمانوں کی توہین یا ایسے قوانین جو انہیں دوسرے درجے کا شہری بناتے ہیں ، جماعت کے لئے سب بےمعنی ہیں اور وہ ان پربات سے پرہیز کرتی ہے۔

وہ ٹی وی اور اخبار سے بھی دور رہنے کی نصیحت دیتی ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی نقطہ نظر سے باخبر مسلمان تبلیغ کے اثر کو اچھا نہیں مانتے اور ٹھیک اسی وجہ سےمسلمان مخالف سیاست کو تبلیغ سے کوئی پریشانی نہیں رہی ہے۔

جماعت کے لوگ اسی لئے کبھی پولیس یا انتظامیہ کے لئے پریشانی نہیں کھڑی کرنا چاہتے کیونکہ وہ مذہبی کام بنا خلل کےکرتے رہنا چاہتے ہیں۔

دھیان رہے، ان کا کام مسلمانوں کے اندر ہی محدود ہے۔ وہ دیگر مذہبی پیروکارکو لےکر کوئی تشہیر نہیں کرتے۔ اسی لئے اس بار وہ بار بار دلیل دے رہے ہیں کہ حکومت نے ان کو جب جو کہا، انہوں نے تب وہی کیا۔

اس سے ان کی کم عقلی کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ اجتماع ہندوستان کو کورونا سےمتاثر کرنے کی سازش تھی، یہ کہنا صرف زیادتی نہیں ہے، اس میں ایک شیطانی احساس ہے۔

کچھ لوگ اس کو قومی سلامتی میں بھاری چوک بتاکر اس پر کارروائی چاہتے ہیں۔چوک سب سے پہلے حکومت کی ہے جس نے جنوری میں ہی غیر ممالک میں کورونا کے انفیکشن کی سنجیدگی کی خبریں سن لی تھیں، لیکن جو خود غیر ملکی کے ساتھ بڑے پروگرام  کرتی رہی۔

چونکہ اس کو سیاسی فائدہ کے لئے غیر ملکی مہمان کا استقبال کرنا تھا، وہ دوسرے ممالک سے آنے والوں پر پابندیاں نہیں لگا سکتی تھی۔

اسی وجہ سے تبلیغ کے اس انعقاد میں باہر سے لوگ آ سکے اور وہ کورونا کےانفیکشن کے کریئر بنے۔ باہر سے آئے غیر مسلمان بھی اس انفیکشن کے شکار تھے، یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔

ان کی لاپروائی کی قیمت ان کے رشتہ داروں نے چکائی، جیسے تبلیغی جماعت کےامیر اور ان کے مہمان کی لاپروائی کی قیمت جماعت کے باقی ہندوستانی ممبر چکا رہےہیں۔

یہ معمولی لاپروائی نہیں ہے، مجرمانہ ہے کیونکہ اس نے جماعت کے ممبروں کےساتھ دوسروں میں کورونا کے انفیکشن کا بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جماعت کے امیر میں قیادت کی خوبی نہیں ہے۔

اب ہم اس موضوع کے دوسرے پہلو پر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگ‌کر رہے ہیں۔

وہ سر پکڑ‌کے بیٹھ گئے ہیں کہ اس ایک احمقانہ حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔

اس طرح سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر  مسلمانوں کی  مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔

اس مخالفت کی وجہ غیر مسلم سماج کو اپنے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ یہ مان لینا کہ مسلمان اگر خود کی ‘اصلاح ‘ کرلیں تو ان کے خلاف تعصب پگھلیں‌گے، ایک معصوم غلط فہمی ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

مسلمان اگر ‘ ترقی پسند ‘ ہے تو وہ مسلمان نہیں لگتا۔ ترقی پسند اورجدیدیت کی ساری شرطیں پوری کرنے والے مسلمانوں کو بھی فطری طورپر فراخ دل ہندومکان نہیں دیتے کیونکہ ہوتے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔

بائیں بازو کے مسلمان فیض احمد فیض ہوں یا بہت بہت سدھرے ہوئے جاوید اختر ، وہ نفرت کی کیچڑ سے بچ نہیں سکتے۔

اپنی مذہبی شناخت سے بےنیاز نصیرالدین شاہ ہوں یا عامر خان، ان کے ساتھ کیابرتاؤ کیا گیا ہے؟ ملحدعمر خالد ہو یا اللہ کو ماننے والے خالد سیفی، دونوں ہی مشکوک ہیں۔

تو کیا مسلمانوں کی’حددرجہ مذہبیت، ان کی’ قدامت پسندی ‘ کی وجہ سے ہی ان کے خلاف نفرت ہے؟

کیا اس سے آزاد کرنے والے اصلاحی تحریک سے مسلمانوں میں ایسی تبدیلی آ جائے‌گی کہ ہندوؤں کا دل ان کی طرف سے صاف ہو جائے‌گا؟

ان سوالوں پر ہندوستانی اکثریت سماج کیا کبھی ایمانداری سے غور کر پائے‌گی؟

میں پھر والد کی طرف ہی لوٹتا ہوں۔ ایک بند میتھل برہمن پنڈت سماج کےایک نوجوان نے کیوں بلا تکلف شیخ  محلے میں مکان لیا؟

کیوں کئی دہائی تک ہر طرح کے مسلمان اور ہر طرح کی مسلمانیت کو دیکھنے کےبعد بھی ان کے متعلق اس کا رخ نہیں بدلا، اب جب وہ نوجوان 90 کے قریب آ چلا ہے؟

کیوں اس نوجوان نے اپنے بڑے بیٹے کا نام اسلامیہ ہائی اسکول میں لکھوایا اوراس میں بھی کیوں مسلمانوں کو لےکر کوئی منفی نظریہ نہیں پیدا ہوا؟

کیا وہ دونوں غیر معمولی ہیں؟ کیا یہ سب ذاتی ہے؟ چاہیں تو آپ پڑھنے والے کہ ہسکتے ہیں کہ یہ آپ کا ایک ذاتی تجربہ ہے، اس کو عمومی نہ بنائیں ۔ عمومی نہ بنانے کی ہی مانگ تو اس طرف سے بھی ہو رہی ہے!

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ )